محمد صابر فیاضوف کی عمر محض 19 سال تھی جب انھیں جدید روس کی تاریخ کے سب سے بہیمانہ دہشت گردانہ حملوں کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ صابر فیاضوف پر کروکس سٹی ہال میں منعقدہ ایک کنسرٹ میں آنے والوں کے قتل اور ہال کو نذرآتش کرنے کا الزام ہے۔
تین دیگر ملزمان پر بھی مار پیٹ کے نشانات واضح تھے۔ روسی سکیورٹی فورسز نے 30 سالہ سیداکرامی مراد علی رجب علیزادے اور 25 سالہ شمس الدین فریدونی پر ہونے والے تشدد کی ویڈیو ٹیلی گرام چینلز پر جاری کر دی تھیں۔شمس الدین فریدونی کی عمر 25 سال تھی اور انھوں نے اپنے آبائی علاقے تاجکستان میں جنسی زیادتی کے الزام میں طویل قید کی سزا کاٹ رکھی تھی۔
دوسری جانب رجب علیزادے 18 سال کی عمر سے ہی روس میں کام کرنے جانے لگے تھے۔ وہ تعمیراتی کام کرتے تھے لیکن پھر انھیں سنہ 2018 میں امیگریشن قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر ملک بدر کر دیا گیا اور پانچ سال تک ملک میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ مقامی مسجد کے امام نے بی بی سی سے بات چیت میں فیاضوف کے خاندان کو ذہین اور باشعور خاندان قرار دیا اور ان کے مطابق ان میں سے کسی کو انتہا پسندوں سے ہمدردی نہیں رہی۔
بہرحال میڈیکل کالج جانے کی بجائے فیاضوف روس میں کام کرنے چلے گئے، جہاں انھوں نے حجام کے طور پر کام کیا۔ اس بات کا علم ان کے رشتہ داروں کے علاوہ سوشل میڈیا سے بھی ہوتا ہے۔ان کی دکان شاپنگ سینٹر کی ایک منزلہ عمارت میں ایک کمرے پر مشتمل تھی جو پارکنگ کی جانب تھا۔ اس دکان کے سامنے ایک بیئر شاپ، پھولوں کی دکان، ایک حقہ بار، چھوٹے قرض دینے کی ایک دکان کے ساتھ شوارما کھانے کی جگہ تھی۔
ان محرکات میں سوویت دور کے بعد ان ممالک میں ریکارڈ غربت اور تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی، افغانستان کے ساتھ ایک طویل سرحد اور سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سے ایک طویل خانہ جنگی اور ناقابل تبدیل اقتدار، جو مذہبی احیا کی کوششوں کو سختی سے دباتی ہے، وغیرہ شامل ہیں۔ کروکس ہال کے حملے کے علاوہ رواں سال تاجک شہریوں کا نام ایران کے شہر کرمان میں ہونے والے بم دھماکوں اور ترکی میں کیتھولک چرچ پر ہونے والے حملے میں بھی سامنے آیا۔تاجکستان میں بنیاد پرستی کی وجوہات میں سے ایک مذہب کو ریاست کے تابع کرنا ہے۔ غربت اور وسیع پیمانے پر نقل مکانی بھی اس کی وجوہات میں شامل ہیں۔ تاجکستان کے معاشی حالت سوویت یونین کے ختم ہونے کے بعد وجود میں آنے والی تمام ریاستوں سے بدتر ہیں۔
ایسی ہی صورتحال میں وہ جہادیوں کے پروپیگنڈے سے متاثر ہوتے ہیں جو مایوس مہاجروں کو اپنی صفوں میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ جس ناانصافی کے بارے میں بات کرتے ہیں اسے مجبور تاجک سمجھتے ہیں۔ تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ زیادہ تر تاجک جو انتہا پسند گروپوں کے رکن بنے وہ روس میں بھرتی کیے گئے تھے۔سوویت یونین کے خاتمے کے بعد تاجکستان خانہ جنگی کی لپیٹ میں آ گیا۔ وہاں دو دھڑے سرگرم رہے ہیں۔ ایک اسلامی نشاۃ ثانیہ پارٹی ہے جس کی قیادت حزب اختلاف کر رہی ہے اور دوسری امام علی رحمانوف کی زیر قیادت مرکزی حکومت...
پاکستان تازہ ترین خبریں, پاکستان عنوانات
Similar News:آپ اس سے ملتی جلتی خبریں بھی پڑھ سکتے ہیں جو ہم نے دوسرے خبروں کے ذرائع سے جمع کی ہیں۔
ذریعہ: arynewsud - 🏆 5. / 63 مزید پڑھ »
ذریعہ: arynewsud - 🏆 5. / 63 مزید پڑھ »
ذریعہ: arynewsud - 🏆 5. / 63 مزید پڑھ »
ذریعہ: ExpressNewsPK - 🏆 13. / 53 مزید پڑھ »
ذریعہ: geonews_urdu - 🏆 15. / 53 مزید پڑھ »
ذریعہ: arynewsud - 🏆 5. / 63 مزید پڑھ »