تقریباً 20 سال تک البان کا خیال تھا کہ شاید وہ اکلوتے مرد ہیں جنھیں 1990 کی دہائی میں کوسوو جنگ کے دوران جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑا لیکن جب ریپ کے شکار افراد کو مزید مدد فراہم کرنے کے لیے قانون میں تبدیلیاں کی گئی تب انھیں احساس ہوا کہ وہ تنہا نہیں۔ان کا اصلی نام البان نہیں۔ 17 سال کی عمر میں وہ اپنے خاندان کے ہمراہ کوسوو میں اپنے گاؤں سے فرار ہو کر روپوش ہو گئے۔
’لیکن پھر مجھے احساس ہوا کہ انھوں نے میرے کپڑے اتار دیے ہیں اور وہ میرے ساتھ بدترین سلوک کر رہے ہیں۔ میں بے ہوش ہو گیا۔‘ڈریٹن کی البان سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی لیکن وہ ان کا درد بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ البان کی طرح ان کا بھی اصلی نام ڈریٹن نہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 1998-1999 کی کوسوو جنگ کے دوران 10 ہزار سے 20 ہزار افراد کو جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ اس واقعے نے ان کے حوصلے توڑ دیے۔ البان کہتے ہیں کہ وہ آج بھی کبھی کبھی سوچتے ہیں کہ آیا وہ مرد کہلانے کے لائق ہیں بھی کہ نہیں۔ ’یہ ایک بہت بڑا بوجھ ہے۔‘ ’میرے والد بوڑھے اور بیمار تھے، مجھے ڈر تھا کہ یہ صدمہ ان کی جان لے سکتا ہے لیکن وہ بھانپ گئے کہ کچھ تو ہوا ہے اور انھوں نے مجھ سے کہا کہ تم کچھ تو چھپا رہے ہو۔‘
جنگ کے بعد ڈاکٹر اور سماجی کارکن فریدی روشتی نے کوسوو کے متاثرین کے لیے ’کے آر سی ٹی‘ نامی تنظیم بنائی جہاں متاثرین کو نفسیاتی اور قانونی مدد فراہم کی جاتی ہےہیومن رائٹس واچ کے مطابق جنگ کے دوران ’نسل کشی کے لیے‘ ریپ کو بطور ہتھیار استعمال کیا گیا۔ یہ سربیا کے سابق صدر سلوبودان ملوشیوچ کا دور تھا۔ خواتین کو شروعات ہی سے اس تنظیم کی جانب سے مدد فراہم کی گئی۔ پھر 2014 میں پارلیمان میں قانون سازی کے ذریعے متاثرین کی نشاندہی کا عمل شروع ہوا اور کئی مردوں نے مدد مانگی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میں کسی کو اس بارے میں بتانا چاہتا تھا۔ مجھے لگتا تھا کہ میں یہ کہیں نہیں بتا سکوں گا۔ آخر کار جب میں مجھے راستہ ملا تو اطمینان حاصل ہوا۔‘ تنظیم کی ماہرِ نفسیات سیلووی ازتی کہتی ہیں کہ ’کئی متاثرین عدالت میں گواہی دینے کے لیے تیار ہیں مگر انھیں معلوم نہیں کہ ظلم کرنے والوں کی شناخت کیسے کی جائے۔‘
پاکستان تازہ ترین خبریں, پاکستان عنوانات
Similar News:آپ اس سے ملتی جلتی خبریں بھی پڑھ سکتے ہیں جو ہم نے دوسرے خبروں کے ذرائع سے جمع کی ہیں۔
ذریعہ: ExpressNewsPK - 🏆 13. / 53 مزید پڑھ »
ذریعہ: ExpressNewsPK - 🏆 13. / 53 مزید پڑھ »
ذریعہ: arynewsud - 🏆 5. / 63 مزید پڑھ »
ذریعہ: BBCUrdu - 🏆 11. / 59 مزید پڑھ »
ذریعہ: arynewsud - 🏆 5. / 63 مزید پڑھ »
ذریعہ: geonews_urdu - 🏆 15. / 53 مزید پڑھ »