گزشتہ پانچ مہینوں سے کورونا کورونا کا شور دنیا بھر میں تھا۔ موسم کے بدلنے کے ساتھ میڈیا اور سیاست کی لغت بدل گئی۔ ہم نے آتے جانا تو سیکھا ہی نہیں ہے ہم پھر گزشتہ کو یاد کرتے رہے کہ فلاں نے 198؍ بندے مارے، فلاں کو قتل کرنے کے بعد فوراً اس کے نام کا چوک بنادیا گیا۔ بس نہ چلا تو لاش کو بوری میں بند کرکے سڑک کے کنارے پھینک دیا گیا۔ اسی طرح جس کا جی چاہا، اس پلاٹ پر شادی ہال، اس پلاٹ پر جلدی جلدی سات منزلہ بلڈنگ کھڑی کردی، لوگوں کے ہاتھوں رقم بٹوری اور کسی اور ملک میں گھر بسایا۔ الطاف حسین کو...
جیسے اب یکدم ٹڈیوں کی طرح لفافے، کھلنے شروع ہوئے ہیں۔ کہیں نام اور کہیں بدنامی کا سلسلہ چل نکلا۔ آج مرے کل دوسرا دن، کو ن پوچھتا ہے کہ بے نظیر کے جلوس میں کتنے سینکڑوں مارے گئے، کتنوں کے گھر لوٹے گئے، مارے گئے۔ کتنے صحافیوں کو تحریر کے جواب میں قبر بھی نہ ملی۔ سوچیں بھلا کس کی حکومت تھی۔ میری آنکھوں نے دیکھا اور کانوں نے سنا کہ ہمارے بہت سے سینئر صاحبان اقتدار نے بھائی کا ساتھ دیا، ان کے ہاتھ کی پکی ہوئی حلیم کھائی، ان کے رنگ میں کڑے پائنچوں کے پاجامے پہنے، گھروں، بازاروں اور ہر گلی میں پتنگ...
ابھی سوشل میڈیا نہیں آیا تھا مگر ہونٹوں نکلی، کوٹھوں چڑھی۔ گھر گھر، ہر چوک قصہ تھا کہ ارشد پپو کون ہے، عزیر بلوچ کون ہے، لیاری والا کون ہے اور سرخرو ایک ہی شخص نکلا جسے حسن کارکردگی بھی ملا، جس نے برملا سب کے سامنے کہا کہ فلاں کو ہفتہ وار اتنے کروڑ اور فلاں کو اتنا سرمایہ دینا میرا فرض تھا۔ وہ ایسا سلطانہ ڈاکو تھا کہ ادھر ڈوبے، ادھر نکلے، کبھی اس کا نام لیا، کبھی اس کا، مگر وہ تو شاہانہ طرز پر کبھی پولیس کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اس دھج سے گیاکہ لوگ اس کے چہرے کی طمانیت دیکھ کر حیران ہوتے اور...
اس پارٹی کا ایسا غلغلہ تھا کہ سڑک پر جاتی ٹیکسی کو جمال، احسانی، ’’جئے مہاجر‘‘ کہہ کر ہوائی جہاز کی طرح روک لیتا تھا۔ وہ بے چارہ تو گزر گیا مگر اب بھی بہت سے ہیں، ان کانام نہیں لیتے، مشاعرے بھی پڑھتے اور ملاقاتیں بھی کرتے ہیں۔ ظاہر نہیں کرتے کہ ہم بھی حلیم کھانے والوں میں تھے۔ہر چند بے شمار شادی ہال اور بلڈنگیں، جو کسی اور کی جگہ پر بنائی، بیچی گئیں۔ بھائی کا نام، میڈیا پر کیا بین ہوا ساری بلڈنگیں گرادی گئیں، نہ کوئی چیخا نہ کوئی بولا کہ سرمایہ تو میںنے لگایا تھا۔ کہ ان میں سے بیشتر لٹیرے جنہیں...
آج سے پہلے ہرچند پیپلزپارٹی کی حکومت تھی۔ مگر حکم بھائی کا چلتا تھا۔ جھنڈا پتنگ پر کونے میں تھا۔ کراچی بے چارہ، ادھر حکومت کرنے والی پارٹی اور دوسری طرف حکومت کرانے والی پارٹی سلطانہ ڈاکوئوں کے ہاتھ میں تھا۔ انکار کرنے کی کسی میں سکت نہیں تھی۔ اب طارق ہو کہ ہارون کہ اظہار الحسن، سب پھر رہے ہیںبے کارواں ہو کر، جس کا سرمایہ بولتا ہے وہ اپنے جہاز میں باہر چلا جاتا ہے۔ جو بہت ہی امیر ہو وہ بیمار بن کر لندن میں رہتا ہے اور جو کینسر کے بہانے کبھی اسپتال تو کبھی ڈاکٹروں کی ہدایت پر باہر نہ نکلنا، بس...
پاکستان تازہ ترین خبریں, پاکستان عنوانات
Similar News:آپ اس سے ملتی جلتی خبریں بھی پڑھ سکتے ہیں جو ہم نے دوسرے خبروں کے ذرائع سے جمع کی ہیں۔
ذریعہ: arynewsud - 🏆 5. / 63 مزید پڑھ »
ذریعہ: Nawaiwaqt_ - 🏆 6. / 63 مزید پڑھ »
ذریعہ: arynewsud - 🏆 5. / 63 مزید پڑھ »
ذریعہ: Nawaiwaqt_ - 🏆 6. / 63 مزید پڑھ »
ذریعہ: arynewsud - 🏆 5. / 63 مزید پڑھ »
ذریعہ: BBCUrdu - 🏆 11. / 59 مزید پڑھ »