بھارت کی آبی دہشت گردی، زہریلا پانی چھوڑنے سے ہزاروں مچھلیاں مرگئیں

  • 📰 arynewsud
  • ⏱ Reading Time:
  • 49 sec. here
  • 2 min. at publisher
  • 📊 Quality Score:
  • News: 23%
  • Publisher: 63%

پاکستان عنوانات خبریں

پاکستان تازہ ترین خبریں,پاکستان عنوانات

بھارت کی آبی دہشت گردی، زہریلا پانی چھوڑنے سے ہزاروں مچھلیاں مرگئیں ARYNewsUrdu

منچن آباد: کنٹرول لائن پر اشتعال انگیزیوں کے بعد بھارت باز نہ آیا اور آبی جارحیت شروع کردی، دریائے ستلج ہیڈ سلیمانکی کے مقام پر بھارت نے زہریلہ پانی چھوڑدیا جس سے ہزاروں مچھلیاں مرگئیں۔

تفصیلات کے مطابق ‎منچن آباد میں دریائے ستلج ہیڈ سلیمانکی کے مقام پر بھارت نے آبی جارحیت کرتے ہوئے دریائے ستلج ہیڈ سلیمانکی کے مقام پر زہریلا پانی چھوڑا، جس کے باعث ہزاروں مچھلیاں مری، واقعے کا خوفناک عنصر یہ ہے کہ زہریلے پانی سے متاثرہ مچھلیاں بہاولنگر، لاہور اور دیگر شہروں میں تقسیم کی جاچکی ہیں، جو کہ انسانی صحت کے لئے انتہائی خطرناک ہوسکتی ہیں۔

اہل علاقہ کا کہنا ہے کہ دریائےستلج ہیڈسلیمانکی میں زہریلے پانی کے باعث مرنے والی ہزاروں مچھلیوں کی ترسیل کو فوری طور پر روکا جائے، متاثرہ مچھلیاں انسانی صحت کیلئےخطرناک ہوسکتی ہیں ۔اہل علاقہ کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال بھی اسی طرح ہزاروں مچھلیاں مر گئی تھیں، انہوں نے حکام سےزہریلی مچھلیوں کی تقسیم روکنےکامطالبہ کیا ہے۔

بھارت کی جانب سے اپنی آبی جارحیت کوئی نہیں بات نہیں، بھارت وقفے وقفے سے اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتا رہتا ہے، گذشتہ سال دریائے چناب میں بھی بھارت کی جانب سے پانی چھوڑا گیا تھا، جس کے باعث دریائے چناب میں درمیانے درجے کا سیلاب آیا تھا اور کئی علاقے زیر آب آگئے تھے۔

 

آپ کے تبصرے کا شکریہ۔ آپ کا تبصرہ جائزہ لینے کے بعد شائع کیا جائے گا۔

کتے کا بچہ بھارت ہے نہ

کیوں پاکستان اتنا کمزور ھے کہ اب بوڑھی بیوہ کی طرح صرف دوھائیاں ھی دیتے رہینگے کبھی کشمیر کے اوپر تو کھبی آبی جارحیت کے اوپر یہ ھندو بنیا اس طرح اور بھی شیر بنتا جا رھا ھے اگر اپنے سمجھ میں کچھ نھیں آرہا تو آزربائجان سے سیکھیں۔۔۔

ہم نے اس خبر کا خلاصہ کیا ہے تاکہ آپ اسے جلدی سے پڑھ سکیں۔ اگر آپ خبر میں دلچسپی رکھتے ہیں تو آپ مکمل متن یہاں پڑھ سکتے ہیں۔ مزید پڑھ:

 /  🏆 5. in PK

پاکستان تازہ ترین خبریں, پاکستان عنوانات

Similar News:آپ اس سے ملتی جلتی خبریں بھی پڑھ سکتے ہیں جو ہم نے دوسرے خبروں کے ذرائع سے جمع کی ہیں۔