Posted: Mar 4, 2020 | Last Updated: 10 mins ago
ان کا کہنا ہے کہ ہم اپنے اسپتال میں بچوں سے زیادتی کے متعدد کیسز دیکھتے ہیں، ہر مشتبہ کیس میں نے دیکھا، میں اپنے ساتھ ایک بوجھ گھر لے کر جاتی ہوں کیونکہ میں صرف طبی طور پر مریض کو سنبھال سکتی ہوں اور انہیں نفسیات کے ڈاکٹر کے حوالے کرسکتی ہوں، میں اس رات سو نہیں پاتی کیونکہ میں اس بچے کو دوبارہ اسی ماحول میں بھیج دیتی ہوں، ایسے خاندان بچوں کو دوبارہ فالو اپ کیلئے لے کر نہیں آتے۔
ان کا کہنا ہے کہ سی پی ایس مریض سے سوال جواب اور جانچ پڑتال کے بعد فیصلہ کرتا ہے کہ پولیس اور چائلڈ پروٹیکشن آفیسر سے رابط کرنا ہے یا نہیں، اگر یہ مشتبہ زیادتی ہوتی ہے تو شعبہ گائنی یا دیگر ساتھیوں کو بھی بلایا جائے گا۔ ڈاکٹر کشور نے یہ بھی کہا کہ 80 سے 90 فیصد واقعات میں مجرم بچے کی جان پہچان والا ہوتا ہے، وہ والدین، نگہداشت کرنیوالا، استاد، رشتہ دار یا جہاں بچہ رہتا ہے اس کے آس پاس رہنے والا بھی ہوسکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ نجی اسپتال جیسا کہ آغا خان یونیورسٹی اسپتال بھی میڈیکولیگل کیسز سے نمٹنے کا اختیار نہیں رکھتے۔ ڈاکٹر کشور نے بتایا کہ اس حوالے سے مدد کیلئے انہوں نے کئی بار محکمہ صحت سندھ، سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ اور سندھ چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی سے رابطہ کیا۔ پولیس اور سندھ چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان ہے۔ بچوں کی عدالتوں کے بغیر نظام انصاف کے معاملات مزید خراب ہوتے ہیں۔
پاکستان تازہ ترین خبریں, پاکستان عنوانات
Similar News:آپ اس سے ملتی جلتی خبریں بھی پڑھ سکتے ہیں جو ہم نے دوسرے خبروں کے ذرائع سے جمع کی ہیں۔
ذریعہ: Roznama_Express - 🏆 12. / 53 مزید پڑھ »
ذریعہ: Aaj_Urdu - 🏆 8. / 63 مزید پڑھ »
ذریعہ: Waqtnewstv - 🏆 10. / 59 مزید پڑھ »
ذریعہ: Aaj_Urdu - 🏆 8. / 63 مزید پڑھ »
ذریعہ: Aaj_Urdu - 🏆 8. / 63 مزید پڑھ »
ذریعہ: DunyaNews - 🏆 1. / 83 مزید پڑھ »