میں ایک سیاح ہوں۔ سیاح اور مسافر میں فرق یہ ہے کہ مسافر کو تو جلد از جلد منزل تک پہنچنے کی فکر ہوتی ہے، لیکن سیاح کی کوئی منزل نہیں ہوتی۔ سیاح کا تو بس ایک ہی نعرہ ہوتا ہے کہ مجھے منزل نہیں ’راستہ‘ چائیے۔ اس سے قطع نظر کہ اس راستے میں اسے فطرت کے حسین مناظر ملیں، یا معاشرے کے دردناک پہلو نظر آئیں، محبت کرنے والے مسافر نواز ملیں، یا دھتکار دینے والے بدتہذیب لوگوں سے واسطہ پڑے۔
چنانچہ جب ایک عام آدمی سیاح بن کر خود کو زندگی کے لگے بندھے روٹین سے باہر نکالنے میں کامیاب ہوتا ہے تو زندگی کی وہ پینٹنگ جو اب تک اس کی نگاہوں سے اوجھل رہی تھی، یکا یک پوری آب و تاب کے ساتھ اس کے سامنے آجاتی ہے۔ اب وہ حیرت سے دانتوں میں انگلی دبائے، زندگی کے روشن و رنگا رنگ مظاہر کے ساتھ ساتھ اس کے اندھیر پہلوؤں کو بھی دیکھتا جاتا ہے اور سیکھتا جاتا ہے۔ ان مشاہدات سے وہ نہ صرف شعور حاصل کرتا ہے، بلکہ معاشرے کی بہتری میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے بھی تیار ہو جاتا...
صرف سفر میں ہی نہیں بلکہ روزمرہ زندگی میں بھی کچھ ایسی غیر مرئی چیزوں کا مشاہدہ ہوا کہ جن کو اگر بیان کیا جائے تو دوسرے تو مشکل سے یقین کریں، خود کو بھی یقین نہ آئے۔ لیکن یقین آئے یا نہ آئے، یہ واقعات بہرحال مجھ پر، میرے ہمسفر ساتھیوں اور میرے عزیز و اقارب پر گزرے ہیں۔ ایسے ہی کچھ واقعات آپ کو سنانے کا دل چاہ رہا ہے۔کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے، میں اپنے 3 دوستوں کے ساتھ وادئ کاغان میں تھا۔ وادئ کاغان میں کچھ جگہوں پر تو موبائل سگنل ٹھیک کام کرتے ہیں لیکن اکثر جگہوں پر یا تو بالکل نہیں ہوتے یا بہت...
’ہاں ہاں، وقاص ہنسا اور کہا کہ میں نے اپنے گھر فون کیا تھا۔ وہاں تو الحمدللہ سب خیریت ہی تھی، لیکن ہم ناران روڈ پر جس جگہ کھڑے ہوکر فون کر رہے تھے، وہاں خیریت نہیں تھی۔‘وقاص نے قصہ بتانا شروع کیا، ’ہم ابھی کاغان سے چند کلومیٹر پیچھے ہی تھے کہ موبائل سگنل آنا شروع ہوگئے۔ میں نے جنگل میں دریائے کنہار کے کنارے پہاڑ کے دامن میں ایک ایسی جگہ گاڑی روک دی جہاں فل سگنل آرہے تھے۔ گاڑی تو میں نے ہینڈ بریک لگا کر روک دی لیکن انجن اسٹارٹ ہی رکھا اور ہیڈ لائٹس بھی روشن رہنے دیں۔ پہاڑی جنگل کی تاریکی میں...
جس وقت کی میں بات کر رہا ہوں اس وقت یہ سیکٹر چونکہ بالکل نیا تھا اور ابھی پوری طرح آباد نہیں ہوا تھا، اس لیے یہاں خاصا ویرانہ ہوتا تھا۔ یہ پُل بھی کچا پکا سا ہوتا تھا اور اس سے گزرنے والی سڑک پر بھی تارکول کی بجائے ریت بچھی ہوتی تھی۔ ریلوے لائن پُل کے نیچے خاصی گہرائی تھی اور اس وقت پُل کے اطراف مکمل ویرانہ اور جنگل سا ہوتا تھا۔ ان دنوں G-13/3 میں میرے کراچی کے ایک دیرینہ دوست عتیق نے اپنا نیا نیا گھر بنایا تھا۔ میں اکثر ان سے ملنے جاتا تھا اور جب بھی جاتا تو اس پُل پر سے گزر ہوتا...
اب جیسے ہی بچے گاڑی میں آکر بیٹھے تو میں نے گاڑی اسٹارٹ کردی اور عادتاً ہیڈ لائٹس کا بٹن آن کردیا۔ لیکن یہ کیا؟ لائٹیں تو فوراً اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ روشن ہوگئیں، بالکل ایسے جیسے کبھی خراب ہی نہ ہوئی ہوں۔ میں حیران رہ گیا۔ میزبان اور بچے بھی میری طرف عجیب نظروں سے تکنے لگے۔ میں کچھ کھسیانا سا ہوگیا۔ لیکن خیر ہم گھر واپس آ گئے۔
G13 main is tarah k muamilat ham ne khud experience kiye hain
پاکستان میں صرف ٹاک شوز ہی وہ مقام ہیں جہاں لوگوں مافوق الفطرت چیزیں دیکھتے ہیں۔
پاکستان تازہ ترین خبریں, پاکستان عنوانات
Similar News:آپ اس سے ملتی جلتی خبریں بھی پڑھ سکتے ہیں جو ہم نے دوسرے خبروں کے ذرائع سے جمع کی ہیں۔
ذریعہ: Dawn_News - 🏆 17. / 51 مزید پڑھ »
ذریعہ: Dawn_News - 🏆 17. / 51 مزید پڑھ »
ذریعہ: Dawn_News - 🏆 17. / 51 مزید پڑھ »
ذریعہ: jang_akhbar - 🏆 7. / 63 مزید پڑھ »
ذریعہ: Dawn_News - 🏆 17. / 51 مزید پڑھ »
ذریعہ: BBCUrdu - 🏆 11. / 59 مزید پڑھ »