400 ارب ڈالر کے کیش ٹرانسفر منصوبے جن کی بنیاد پر نریندر مودی تیسری مرتبہ وزارتِ عظمیٰ حاصل کرنا چاہتے ہیںوائی سرسوتی نے 30 سال پہلے اپنے شوہر کو کھو دیا - وہ کہتی ہیں کہ ہر ماہ 35 ڈالر کی بیوہ پنشن اس کا وقار دیتی ہےبرسوں کے انتظار کے بعد شاید اب بلرام بھلّوی اور اُن کے خاندان کو رہنے کے لیے چھت مل ہی جائے گی۔
’پردھان منتری آواس یوجنا‘ نامی ہاؤسنگ پروگرام کے تحت انڈیا میں سنہ 2016 سے لے کر اب تک ڈھائی کروڑ سے زیادہ چھوٹے گھر تعمیر کیے جا چکے ہیں۔ یہ ہاؤسنگ پروگرام اُن 300 سے زائد عوامی فلاح کی سکیموں میں سے ایک ہے جن کا تذکرہ نریندر مودی عام انتخابات کی مہم کے دوران بارہا کر رہے ہیں۔ ماہر اقتصادیات اروند سبرامنیم اِسے نریندر مودی کا ’نیو ویلفیئر ازم‘ کہتے ہیں، جس میں پرائمری تعلیم اور بنیادی صحت کی سہولیات سے زیادہ بیت الخلا جیسی انتہائی ضروری اور نجی ضرورت کی اشیا پر توجہ دی گئی ہے۔
مسلسل تیسری بار جیتنے والی ممتا بنیر جی نے فلاحی کاموں کو ترجیح دے رکھی ہے اور اس وقت تین درجن سے زیادہ سکیمیں چلائی جا رہی ہیں جن میں سکول جانے کے لیے مفت سائیکل کی فراہمی، لڑکیوں کے لیے وظیفے، معاشی امداد، خواتین، بوڑھوں اور معزور افراد کے لیے پنشن سمیت طبی انشورنس کی سہولیات شامل ہیں۔ سینکڑوں میل دور انڈیا کی جنوبی ریاست آندھرا پردیش کے ساحلی شہر وشاکاپٹنم میں اپنے بچوں کا مستقبل روشن بنانے کا خواب دیکھنے والی لکشمی کی امیدیں بھی ایک فلاحی سکیم سے جڑی ہیں۔ وہ اپنے شوہر کے ساتھ رہتی ہیں جو سن نہیں سکتے اور بولنے میں بھی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ ان کے دو بچے سکول جاتے ہیں اور بیوہ ساس بھی ان کے ساتھ ہی رہتی ہیں۔ شوہر کو معذوری کی وجہ سے اور بیوہ ساس کو ماہانہ ملا کر چھ ہزار روپے پنشن ملتی ہے جس سے گزر بسر ہوتا...
سروے ظاہر کرتے ہیں کہ مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد کھانے کے صاف تیل اور ٹوائلٹ کا استعمال اور خواتین کی بینکوں تک رسائی میں اضافہ ہوا ہے۔ مفت سائیکلوں کی فراہمی کی وجہ سے مختلف ریاستوں میں سکول اور کالج جانے والی لڑکیوں کی تعداد بھی بڑھی ہے۔ ماہر معیشت اروند سبرامنیئم کا کہنا ہے کہ ’سیاسی رہنماؤں کو ان سکیموں سے سیاسی فائدہ ہوا ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان سکیموں کے فوائد میں کمی آئی ہے۔ گورننس یعنی طرز حکمرانی اور دیگر چیزوں کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔‘
بہت سی سکیموں میں مسائل بھی ہیں۔ وشاکاپٹنم میں سرکاری امداد وصول کرنے کے باوجود لکشمی اور ان کے گھر والوں کو ایک خطیر رقم پینے کا پانی خریدنے پر خرچ کرنا پڑتی ہے کیوں کہ پانی کا کنکشن نہیں ہے۔ وہ ہمسائیوں کے اپارٹمنٹ میں ٹائلٹ استعمال کرتے ہیں کیوں کہ ان کے اپنے گھر میں ٹائلٹ نہیں۔ دیویش کپور کا ماننا ہے کہ ’کیش ٹرانسفر ایک قلیل مدتی حل بن چکا ہے اور طویل مدتی مشکل حل جیسا کہ زراعت، تعلیم اور نظام صحت میں سرمایہ کاری کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔‘
پاکستان تازہ ترین خبریں, پاکستان عنوانات
Similar News:آپ اس سے ملتی جلتی خبریں بھی پڑھ سکتے ہیں جو ہم نے دوسرے خبروں کے ذرائع سے جمع کی ہیں۔
ذریعہ: geonews_urdu - 🏆 15. / 53 مزید پڑھ »
ذریعہ: BBCUrdu - 🏆 11. / 59 مزید پڑھ »
ذریعہ: arynewsud - 🏆 5. / 63 مزید پڑھ »
ذریعہ: arynewsud - 🏆 5. / 63 مزید پڑھ »
ذریعہ: BBCUrdu - 🏆 11. / 59 مزید پڑھ »
ذریعہ: ExpressNewsPK - 🏆 13. / 53 مزید پڑھ »