برطانیہ اور جنوبی افریقہ میں دریافت ہونے والی کورونا وائرس کی نئی اقسام موجودہ ویکسینز اور مخصوص مونوکلونل اینٹی باڈیز طریقہ علاج کی افادیت کو کم کرسکتی ہیں اور ان سے کووڈ 19 کو شکست دینے والے افراد میں دوبارہ بیماری کا خطرہ بھی ہوسکتا ہے۔طبی جریدے جرنل نیچر میں شائع تحقیق کے ابتدائی نتائج اس سے قبل جنوری میں پری پرنٹ سرور BioRxiv میں شائع ہوئے تھے۔28 جنوری کو کمپنی نے اپنی ویکسین کے ٹرائل کے نتائج جاری کرتے ہوئے بتایا تھا کہ یہ ویکسین برطانیہ میں ٹرائل کے دوران لگ بھگ 90 فیصد تک مؤثر رہی تھی...
انہوں نے مزید کہا کہ اس خیال کو دیکھتے ہوئے ضرورت ہے کہ جس حد تک جلد ممکن ہو وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جائے، تاکہ وہ اپنے اندر مزید تبدیلیاں نہ لاسکے۔ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ان اقسام کے خلاف ویکسینز کی مجموعی افادیت میں لگ بھگ 2 گنا کمی آئی مگر جنوبی افریقہ قسم کے خلاف اس شرح میں ساڑھے 6 سے ساڑھے 8 گنا تک کمی آئی۔
محققین نے کہا کہ ہمیں وائرس کو نقول بنانے سے روکنا ہوگا اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ویکسین کو زیادہ تیزی سے لوگوں تک پہنچایا جائے اور احتیاطی تدابیر اور سماجی دوری پر عمل کیا جائے، جس سے وائرس میں مزید میوٹیشنز کی روک تھام کی جاسکے۔