پیریزبرگ کو آپ ایک چھوٹا شہر یا بڑا قصبہ، جو مرضی سمجھ لیں۔ یہ تقریباً دوسو سال پرانا شہر ہے اور اس کی آبادی تیس ہزار نفوس سے کم ہے۔ یہ گریٹر ٹولیڈو کا حصہ ہے جس کی آبادی تین لاکھ سے کم ہے۔ ٹولیڈو کی آبادی ملتان شہر کا محض 15 فیصد ہے۔ بیس لاکھ سے زائد آبادی والے شہر ملتان میں اجڑی پجڑی دو پبلک لائبریریاں ہیں۔ ایک پبلک لائبریری باغ لانگے خان اور دوسری پبلک لائبریری قلعہ کہنہ قاسم باغ۔ بیس لاکھ آبادی اور دو تھکی ہوئی لائبریریاں جہاں ہر وقت ایک عجب اجاڑپن کا احساس ہوتا ہے۔ ادھر تین لاکھ سے کم...
پیریزبرگ سے گیٹلن برگ کا سفر آٹھ نو گھنٹے پر مشتمل تھا جو راستے میں کھانا کھانے، کافی لینے اور پٹرول پمپس پر رکتے رکاتے دس گھنٹے میں ختم ہوا۔ اس دوران پہلے تو بچے اپنی اپنی سیٹ میں پھنسے کتاب پڑھتے رہے۔ دو گھنٹے بعد کتاب پڑھتے ہوئے تھک گئے تو اپنے ٹیبلٹس کے ساتھ کھیلنے لگ گئے۔ جب مزید بور ہوئے تو پھر ہم نے آپس میں وہی پرانی گیم کھیلنی شروع کردی جو کبھی دوران سفر میں، میری اہلیہ اور بچے آپس میں کھیلا کرتے تھے۔ اس گیم میں شہروں اور ملکوں کے نام بتائے جاتے ہیں اور جس شہر یا ملک کے نام کا آخری حرف...
سیفان نے بتایا کہ اس کے سکول کی لائبریری میں ملکوں اور شہروں کے ناموں پر مشتمل ایک کتاب ہے جو وہ گھر لاکر پڑھ چکا ہے۔ مجھے اس کی سکول کی لائبریری کے ذکر سے یاد آیا کہ ایک بار جرمنی نے پاکستان کو پرائمری سکولوں کی لائبریریوں کیلئے کئی کروڑ ڈالر کا فنڈ دیا تھا اور اس فنڈ کے ساتھ یار لوگوں نے یہ کیا کہ ایسی ایسی کتابیں خرید کر پرائمری سکولوں کی لائبریریوں کو دیں جو علمی استعداد کے حوالے سے ڈگری کلاس کے طلبہ سے بھی اوپر کی تھیں اور کتب فروشوں کے پاس عرصے سے فالتو اور بیکار پڑی تھیں۔ جہاں تک مجھے...
تھوڑی دیر بعد سیفان مجھ سے پوچھنے لگا: بڑے بابا! آپ کو پتا ہے کہ سرخ رنگ کیسے بنتا ہے؟ میں نے کہا: نہیں مجھے تو نہیں پتا۔ وہ بتانے لگا کہ سرخ رنگ پہلے Cochineal Beetles کو پیس کر بنایا جاتا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ یہ کوچینیل بیٹلز کیا ہوتے ہیں؟ وہ بتانے لگا کہ یہ دراصل سرخ رنگ کا Insect ہے۔ پھر مجھے بتانے لگا کہ ہے تو بری بات‘ لیکن پیلا رنگ گائے کے پیشاب سے بنتا تھا جسے آم کے درخت کے پتے کھلائے جاتے تھے۔ اور سفید رنگ جانوروں کی ہڈیوں کو جلا کر بنائی جانے والی راکھ سے بنتا تھا۔ سبز رنگ ایک...
مجھے گمان ہے کہ یہ کمپلیکس سکندر مرزا کے زمانے میں بنایا گیا تھا۔ تبھی اس صنعتی علاقے کا نام سکندر آباد رکھا گیا اور یہاں پانچ صنعتی یونٹس لگائے گئے۔ میپل لیف سیمنٹ فیکٹری، وائٹ سیمنٹ فیکٹری، پاک امریکن فرٹیلائزر فیکٹری، پاکستان اینٹی بائیوٹکس اور پاکستان ڈائیز فیکٹری۔ پہلی تینوں فیکٹریاں چونکہ منافع بخش تھیں لہٰذا وہ تو پرائیویٹ سیکٹر میں بک چکی ہیں اور آخری دو جدید تقاضوں کے مطابق تبدیلیوں سے خود کو ہم آہنگ نہ کر سکیں لہٰذا دونوں بند ہو چکی ہیں۔ پاکستان اینٹی بائیوٹکس فیکٹری میں تب پنسلین...
پاکستان تازہ ترین خبریں, پاکستان عنوانات
Similar News:آپ اس سے ملتی جلتی خبریں بھی پڑھ سکتے ہیں جو ہم نے دوسرے خبروں کے ذرائع سے جمع کی ہیں۔
ذریعہ: DunyaNews - 🏆 1. / 83 مزید پڑھ »
ذریعہ: DunyaNews - 🏆 1. / 83 مزید پڑھ »
ذریعہ: newsonepk - 🏆 18. / 51 مزید پڑھ »
ذریعہ: newsonepk - 🏆 18. / 51 مزید پڑھ »
ذریعہ: newsonepk - 🏆 18. / 51 مزید پڑھ »
ذریعہ: newsonepk - 🏆 18. / 51 مزید پڑھ »