سوشل میڈیا پر جس طرز زندگی کی تشہیر کی جاتی ہے وہ بہت ہی دلکش ہے لیکن کیا سوشل میڈیا انفلوئنسرز کا کرئیر قابل تقلید ہے۔
کامیاب انفلوئنسر افراد سب سے پہلے یہ دعویٰ کریں گے کہ کوئی بھی اسے اپنا میدان عمل بنا سکتا ہے اور اس انڈسٹری میں آ سکتا ہے۔ لو آئی لینڈ کے مقابلے میں شرکت سے انفلوئنسر بننے والی مولی مے ہیگ کو اس بات کے لیے تنقید کا نشانہ بنایا گیا جب انھوں نے یہ کہا کہ ہر ایک کے پاس 'دن میں ایک جیسے 24 گھنٹے ہوتے ہیں' جبکہ حقیقت میں بہت کم لوگ انفلوئنسر کے طور پر اسے مالی منفعت کا سودا بنا پاتے ہیں۔
برطانوی پارلیمنٹ کی ڈیجیٹل، کلچر، میڈیا اینڈ سپورٹ کمیٹی کی اپریل سنہ 2022 کی ایک رپورٹ میں انفلوئنسر کی صنعت میں تنخواہ کے فرق کو ایک اہم مسئلہ کے طور پر شناخت کیا گيا ہے۔ اس شعبے میں جنس، نسل اور معذوری کی بنیاد پر تنخواہوں میں بڑا فرق نظر آتا ہے۔ ڈی سی ایم ایس رپورٹ میں عالمی تعلقات عامہ کی ایک کمپنی ایم ایل ایس گروپ کے 2020 کے مطالعے کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں پتا چلا ہے کہ سفید فاموں اور سیاہ فاموں کی تنخواہوں کے درمیان 35 فیصد کا نسلی فرق موجود...
جب پاکستان کا تعلیمی معیار ہی اتنا ناکس ہو تو وہاں کے ینگسٹر یوٹیوبر ہی تو بنیں گے ناں۔