ہم سب بولنا چاہتے ہیں اور بول بھی رہے ہیں مگر ایسا لگتا ہے کہ گفتگو کہیں بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ کیوں؟ کم ہی لوگ جانتے ہیں۔ غور کریں تو جان بھی پائیں۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ اُنہیں یہ احساس بھی نہیں کہ گفتگو کا فن کھو سا گیا ہے۔ سب اس خوش فہمی کا شکار ہیں کہ جو کچھ اُن کے منہ سے نکلتا ہے وہ گفتگو ہے۔ ایسا نہیں ہے! گفتگو محض بولنے کا نام نہیں۔ کوئی بولتا ہی چلا جائے تو اُسے گفتگو نہیں، خود کلامی کہا جاتا ہے۔ گفتگو کے لیے انگریزی میں لفظ dialogue ہے جبکہ خود کلامی یعنی اپنے طور پر بولتے چلے جانے کو...
ایک دور وہ بھی تھا جب اجنبی بھی ملتے تھے تو بات کرتے تھے، خیالات کے تبادلے کے ذریعے ایک دوسرے کو جاننے میں دلچسپی لیا کرتے تھے۔ کوشش ہوتی تھی کہ ذہن میں کوئی ابہام باقی نہ رہے اور ایک دوسرے کو اس طور جان لیا جائے کہ جاننے کا حق ادا کرنے کی راہ ہموار ہو۔ امریکی مصنفہ اور ڈیریگزل یونیورسٹی میں انگریزی کی پروفیسر پاؤلا میرینٹز کوہن کہتی ہیں کہ جب سمارٹ فون، میسج بورڈز اور آن لائن فورمز نہیں تھے تب لوگوں کے پاس بیان کرنے کو بہت کچھ تھا۔ زندگی کی رفتار آج کی سی ہنگامہ خیز و ہنگامہ پرور نہ تھی۔ تب...
زندگی میں سارا تنوع اختلاف سے ہے۔ اگر لوگ ایک دوسرے سے مختلف نہ ہوں تو زندگی یکسانیت کے دائرے میں مقید ہوکر رہ جائے۔ پاؤلا میرینٹز کوہن نے گفتگوکے فن پر خاصی تحقیق کی ہے۔ وہ ''Talking Cure: An Essay on the Civilizing Power of Conversation‘‘ کی مصنفہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آج ہم میں سے بیشتر صرف اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ کوئی ہماری بات سنے اور مکمل اتفاق کرے۔ گزرے ہوئے زمانوں میں یہ رجحان نہیں تھا۔ لوگ اختلافِ رائے کو پسند کرتے تھے اور کسی کی بالکل مختلف رائے سن کر بھی متاثر ہوتے تھے...
پاکستان تازہ ترین خبریں, پاکستان عنوانات
Similar News:آپ اس سے ملتی جلتی خبریں بھی پڑھ سکتے ہیں جو ہم نے دوسرے خبروں کے ذرائع سے جمع کی ہیں۔
ذریعہ: geonews_urdu - 🏆 15. / 53 مزید پڑھ »
ذریعہ: arynewsud - 🏆 5. / 63 مزید پڑھ »
ذریعہ: arynewsud - 🏆 5. / 63 مزید پڑھ »
ذریعہ: BBCUrdu - 🏆 11. / 59 مزید پڑھ »
ذریعہ: jang_akhbar - 🏆 7. / 63 مزید پڑھ »
ذریعہ: DailyPakistan - 🏆 3. / 63 مزید پڑھ »