مولانا فضل الرحمٰن اسلام آباد کے فائیو اسٹار ہوٹل میں جب اپوزیشن کی پانچویں کل جماعتی کانفرنس کے 26 نکاتی اعلامیے اور ایکشن پلان کا اعلان کر رہے تھے، تو ایکشن پلان کا آخری نقطہ یہ تھا کہ ‘سلیکٹڈ حکومت کی تبدیلی کے لیے متحدہ حزبِ اختلاف پارلیمان کے اندر اور باہر جمہوری، سیاسی اور آئینی آپشن استعمال کرے گی، جن میں عدمِ اعتماد کی تحاریک اور مناسب وقت پر اسمبلیوں سے اجتماعی استعفوں کا آپشن شامل ہے‘۔
شہباز شریف کے مفاہمانہ رویوں کی وجہ سے حکومت مخالف ساری جماعتیں ناراض نظر آتی تھیں۔ سینیٹ چیئرمین کے خلاف تحریک عدمِ اعتماد سے لیکر حالیہ مشترکہ اجلاس میں ایف اے ٹی ایف تک ہونے والی قانون سازی سے پتہ چلتا تھا کہ ہر موقع پر اپوزیشن کی 2 بڑی جماعتوں نے حکومت کو محفوظ راستہ فراہم کیا ہے، اب یہ کسی خوف کے نتیجے میں تھا یا کسی کی خوشنودی کے لیے، اس بارے میں اپوزیشن کے قائدین کو ہی معلوم تھا، لیکن یہ بات بہت واضح ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن پہلے دن سے اپوزیشن کی ان 2 بڑی جماعتوں پر اعتبار کرنے کے لیے...
خیر، واپس آتے ہیں نواز شریف کی تقریر پر جس میں انہوں نے فیصلہ کن اقدامات پر زور دیا تھا لیکن اگر حکومت کے خلاف تیار کیے گئے ایکشن پلان کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کا قائم ہونے والا نیا اتحاد ایسے گل نہیں کھلائے گا، جس کی فوری طور توقع کی جارہی ہے، کیونکہ حکومت کے ساتھ قانون سازی میں تعاون نہ کرنے کا اعلان بتاتا ہے کہ انتخابی اصلاحات ممکن نہیں ہوسکے گی۔ خود مسلم لیگ کے دور میں انتخابی اصلاحات کا عمل 3 سال تک لے گیا تھا، اور اس حکومت کے تو ویسے بھی 3 سال ہی رہ گئے ہیں۔...
ایک اہم بات یہ رہی کہ اے پی سی کا جو شیڈول تھا، سارے معاملات اس کے برخلاف ہوئے۔ یعنی 12 بجے جس کانفرنس کو شروع ہونا تھا وہ ایک گھنٹے بعد ایک بجے شروع ہوئی اور 5 بجے ختم ہونے کے بجائے رات ساڑھے 9 بجے ختم ہوئی۔ اپنے لیے مختص ہونے والے ہال میں صحافیوں کی اکتاہٹ واضح نظر آتی تھی، لیکن اے پی سی ختم ہونے کے بعد جب قائدین پریس کانفرنس کے لیے ہال میں پہنچے تو بلاول بھٹو اور مریم نواز کو چھوڑ کر شہباز شریف، مولانا فضل الرحمٰن اور دیگر قائدین کے چہروں سے تھکاوٹ کو محسوس کرنا کسی بھی طور پر مشکل نہیں تھا۔...
تھکاوٹ کا ایک سبب تو قائدین کا 12 گھنٹے سے زائد اے پی سی کی سرگرمیوں میں شامل ہونا تھا، جبکہ دوسری جانب میاں نواز شریف کے خطاب نے کھیل کو تبدیل کردیا تھا۔ جو اعلامیہ جاری کیا گیا وہ بھی تھوڑے بہت نکات کو چھوڑ کر نواز شریف کی تقریر کے گرد گھومتا نظر آیا۔ ایسا لگتا تھا کہ اپنے پیسوں سے لگائے میلے کو لیگ کے ہاتھوں ہائی جیک کرنے کا فیصلہ پیپلزپارٹی نے سوچ سمجھ کر کیا تھا، یہی وجہ ہے کہ مریم نواز اور بلاول بھٹو کے چہرے دیگر قائدین کے برعکس زیادہ مطمئن نظر آتے تھے۔ اس اطمینان کے پیچھے بھی ایک کہانی...
پاکستان تازہ ترین خبریں, پاکستان عنوانات
Similar News:آپ اس سے ملتی جلتی خبریں بھی پڑھ سکتے ہیں جو ہم نے دوسرے خبروں کے ذرائع سے جمع کی ہیں۔
ذریعہ: arynewsud - 🏆 5. / 63 مزید پڑھ »
ذریعہ: BBCUrdu - 🏆 11. / 59 مزید پڑھ »
ذریعہ: jang_akhbar - 🏆 7. / 63 مزید پڑھ »
ذریعہ: arynewsud - 🏆 5. / 63 مزید پڑھ »
ذریعہ: Dawn_News - 🏆 17. / 51 مزید پڑھ »
ذریعہ: arynewsud - 🏆 5. / 63 مزید پڑھ »