خیوا ازبکستان کا ایک چھوٹا سا شہر ہے۔ یہ قراقرم اور قزلقۇم کے صحراؤں میں گھرا ہوا ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہاں آپ کس راستے سے آتے ہیں کیونکہ تمام راستے ’ایچھان قلعہ‘ کی فصیل کی طرف جاتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ خیوا میں تمام دیکھنے کے قابل جگہیں اس قلعے کی اندر ہی ہیں۔
دوسری جانب، لکڑی پر کندَہ کاری کے ایک ماہِر اپنی کرسی پر بیٹھے لکڑی کی بنی ہوئی خوبصورت شطرنج کی بساط پر کام کرنے میں مشغول تھے۔ قالین بننے میں مصروف خاتون نے ایک لمحے کے لیے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور پھر دوبارہ اپنے کام میں مگن ہو گئیں۔ 130 قبل مسیح سے لے کر 1453 عیسوی تک تقریباً 1,500 سالوں تک اس وسطی ایشیائی خطے نے نہ صرف ریشم اور مسالوں کے تجارت کے لیے بلکہ ہر قسم کے نظریات اور فلسفے کے لیے بھی شہرت پائی۔آثار قدیمہ کے شواہد سے ٰثابت ہوتا ہے کہ خیوا چھٹی صدی عیسوی سے موجود ہے۔ ایک زمانے میں یہ شہر شاہراہ ریشم کی تجارتی راہداری کا اہم مرکز تھا۔ 16ویں صدی عیسوی میں خیوا کی اہمیت میں اُس وقت مزید اضافہ ہو گیا جب اس شہر کو خانیت یعنی ’خان حکمرانوں کی بادشاہی‘ کا دارالحکومت بنا دیا...
اُن کا کہنا ہے کہ ایچھان قلعہ زائرین کو اس کے تاریخی مقامات کو قریب سے دیکھنے مواقع کے ساتھ ساتھ مقامی آبادی سے بامعنی بات چیت کا موقع فراہم کرتا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ خیوا شاہراہ ریشم کے دیگر مشہور شہروں سے یکسر مختلف ہے۔ بخارا اور سمرقند کے برعکس جو ماضی اور حال کا ایک امتزاج پیش کرتے ہیں، خیوا وقت میں قید ایک قدیم شہر کی یاد دلاتا ہے۔اگرچہ مقامی لوگ قلعے کے اندر نہیں رہتے لیکن وہ روزانہ اپنے سٹوڈیوز ، دکانوں ، ریستورانوں اور چائے خانوں میں کام کرنے آتے...
مگر میری سب سے پسندیدہ جگہ فصیل کے شمالی دروازے کی جانب واقع توش ہولی یا پتھر کا محل ہے جسے سنہ 1830 کی دہائی کے وسط میں علی قلی خان نے تعمیر کروایا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ چوٹی تک پہنچ کر انھیں نہ صرف قلعے بلکہ اس کی دیواروں سے باہر واقع قصبے کا نظارہ دیکھنے کو ملا۔ یہاں سے صحرا میں غروب آفتاب کا منظر واقعی شاندار تھا۔اگرچہ قلعہ کے زیادہ تر حصوں کو ان کی سابقہ شان و شوکت کے ساتھ بحال کر دیا گیا ہے، لیکن سابقہ مدرسوں کو دستکاری ورکشاپوں یا یادگار بازاروں میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ انھیں آج بھی حیرت ہوتی ہے کہ زمانہ قدیم میں قافلوں نے شاہراہ ریشم پر واقع اس خوبصورت جگہ تک اپنا راستہ کیسے تلاش کیا۔ ’سستی پڑھائی لیکن مشکل زبان‘: کیا جنوبی کوریا اعلیٰ تعلیم کے لیے پاکستانی طلبہ کا نیا ’پسندیدہ‘ ملک بن سکتا ہے؟
پاکستان تازہ ترین خبریں, پاکستان عنوانات
Similar News:آپ اس سے ملتی جلتی خبریں بھی پڑھ سکتے ہیں جو ہم نے دوسرے خبروں کے ذرائع سے جمع کی ہیں۔
ذریعہ: arynewsud - 🏆 5. / 63 مزید پڑھ »
ذریعہ: BBCUrdu - 🏆 11. / 59 مزید پڑھ »
ذریعہ: PTVNewsOfficial - 🏆 16. / 51 مزید پڑھ »
ذریعہ: arynewsud - 🏆 5. / 63 مزید پڑھ »
ذریعہ: BBCUrdu - 🏆 11. / 59 مزید پڑھ »
ذریعہ: ExpressNewsPK - 🏆 13. / 53 مزید پڑھ »