Posted: Mar 10, 2021 | Last Updated: 2 hours agoسماء ڈیجیٹل سے گفتگو کرتے ہوئے لڑکی کے والد تخت مل کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی کویتا کو گھر سے 8 مارچ کو 5 افراد نے اغواء کیا، تاحال اس کا کچھ معلوم نہیں۔
تخت مل نے پولیس کو بتایا کہ وہ 5 میں سے 4 افراد کو پہچانتے ہیں، جن کے نام مشتاق، بھورل، رستم اور محمد بخش ہیں، ان میں سے دو افراد کے ہاتھوں میں پستول تھے، جنہوں نے ہمیں مزاحمت نہ کرنے کا کہا اور بولے کہ ہم اس کی شادی مشتاق سے کرائیں گے۔ وزیراعلیٰ سندھ کے معان خصوصی اور وکیل ویرجی کوہلی کا کہنا ہے کہ لڑکی کو کشمور سے گھوٹکی منتقل کیا جاچکا ہے جہاں اسے عدالت کے سامنے پیش کیا گیا۔ کویتا نے اپنے اہل خانہ سے تحفظ کی اپیل کی ہے، کیونکہ اس کا دعویٰ ہے کہ اس نے اپنے والدین کی مرضی کے بغیر مشتاق سے شادی کی ہے۔
ویرجی کوہلی کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں ایسا کوئی قانون موجود نہیں جس کے تحت ثابت کیا جاسکے کہ کسی کا زبردستی مذہب تبدیل کرایا گیا ہے کیونکہ لڑکیاں یا نوجوان خواتین جج کے سامنے پیش ہوکر بتاتی ہیں کہ انہوں نے بغیر کسی دباؤ کے مذہب تبدیل کیا ہے۔ البتہ انہوں نے مزید کہا کہ پولیس اس کیس کو سندھ چائلڈ میریج ریسٹرین ایکٹ کے تحت ڈیل کرے گی۔