قیدیوں کے تبادلے کے ذریعے ان کی واپسی کی بات کرنے والوں میں داعش جیسی انتہا پسند تنظیمیں بھی شامل ہیں اور برطانوی صحافی ایوان رڈلے کے مطابق افغان طالبان نے بھی ماضی میں قیدیوں کے تبادلے کے ذریعے ان کی رہائی کی کوشش کی۔ ان کی2003 ء میں گمشدگی،2008ء میں دوبارہ زخمی حالت میں افغانستان کے صوبے غزنی میں منظر عام پر آنا، امریکی عدالت میں مقدمہ کے بعد چھیاسی سال کی قید کے دوران بہت سے ایسے سوالات اٹھتے رہے...
اس کتاب کی رونمائی رواں سال24 اکتوبر کو ہیوسٹن یونیورسٹی میں ہوئی جہاں ڈاکٹر عافیہ نے امریکا میں اپنی تعلیم کا آغاز کیا تھا۔ داؤد کی ایک بڑی کامیابی یہ ہے کہ وہ واشنگٹن میں امریکہ کے معروف ترین تھنک ٹینکس میں سے ایک ’ولسن سنٹر‘ کے ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر اور ساؤتھ ایشیا کے سینئر ایسوسی ایٹ مائیکل کوگل مین تک نہ صرف کتاب پہنچانے میں بلکہ کتاب کے حق میں ان سے مثبت کمنٹس لینے میں کامیاب ہو چکے...
عدالت میں عافیہ کے مخالف وکیلوں نے اس سوال پر بھی بحث نہیں کی کہ 2003ء سے 2008ء تک عافیہ کہاں تھیں۔ عدالتی ریکارڈ کے مطابق امریکی حکومت کا موقف اس بارے میں یہ تھا کہ عافیہ امریکا کی کسی خفیہ جیل میں نہیں تھیں اور امریکی حکومت اس سے لا علم ہے کہ عافیہ اس دوران کہاں تھیں۔ یاد رہے کہ مقدمے سے قبل 2006ء میں صدر بش اس بات کا اعتراف کر چکے تھے کہ سی آئی اے امریکا سے باہر مختلف ممالک میں خفیہ جیلیں آپریٹ کر رہی ہے جہاں قیدیوں سے اعتراف جرم کے لئے تشدد کا حربہ استعمال کیا جاتا ہے جو امریکی قوانین کے...
یاد رہے کہ اس کیس کا سرکاری نام ’امریکی حکومت بمقابلہ عافیہ صدیقی‘ ہے۔ یہ کیس امریکی حکومت نے عافیہ کے خلاف دائر کیا تھا اور اس میں سات مختلف دفعات میں عافیہ پر یہ الزام لگایا گیا کہ انھوں نے امریکی شہریوں کو قتل کرنے کی کوشش کی، امریکی حکومت کے اہل کاروں پر ہتھیار اٹھائے، امریکیوں پر حملہ کیا۔ یہ ساتوں الزامات ایک ہی واقعہ کے بارے میں ہیں لیکن ان سب میں عافیہ کو الگ الگ قید کی سزائیں ہوئی ہیں جن کا مجموعی عرصہ چھیاسی برس...
جج برمن کی فائنل تقریر کے مطابق عدالتی کاروائی میں مداخلت کے با عث کئی مرتبہ عافیہ کو عدالت سے ملحق کمرے میں ایک ٹی وی پر اپنا فیصلہ دیکھنے پر مجبور ہونا پڑا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عافیہ واقعی ذہنی طور پر نارمل نہیں تھیں ۔ داؤد کے مطابق عافیہ کی ذہنی حالت کچھ ایسی تھی کہ وہ کسی پر بھی اعتماد نہیں کرتی تھیں۔ انہیں ایک ایسا مینٹل ڈس آرڈر تھا کہ انہیں ایک دفعہ اپنے کمرے میں کتا نظر آیا۔ کتاب میں مذکور عدالتی کاروائی کے مطابق عافیہ صدیقی نے کئی مرتبہ اپنے وکیلوں پر عدم اعتماد کا مظاہرہ کیا اور...
کتاب کے مطابق عافیہ کی امریکا رہائش کے دوران2002ء میں ایف بی آئی نے ان سے اور ان کے سابق شوہر سے تفتیش کے لئے رابطہ کیا تھا اور ایف بی آئی کے ساتھ باقاعدہ اٹارنی کے ذریعے سوال جواب کی نشست بھی ہوئی تھی لیکن امریکی حکومت کے وکلاء کے مطابق عافیہ اس تفتیش سے بچنے کے لئے پاکستان چلی گئی تھیں۔
پاکستان تازہ ترین خبریں, پاکستان عنوانات
Similar News:آپ اس سے ملتی جلتی خبریں بھی پڑھ سکتے ہیں جو ہم نے دوسرے خبروں کے ذرائع سے جمع کی ہیں۔
ذریعہ: DailyPakistan - 🏆 3. / 63 مزید پڑھ »
ذریعہ: Nawaiwaqt_ - 🏆 6. / 63 مزید پڑھ »
ذریعہ: Waqtnewstv - 🏆 10. / 59 مزید پڑھ »
ذریعہ: DunyaNews - 🏆 1. / 83 مزید پڑھ »
ذریعہ: Waqtnewstv - 🏆 10. / 59 مزید پڑھ »
ذریعہ: DunyaNews - 🏆 1. / 83 مزید پڑھ »