اسلامی تاریخ میں ہمیں کاروباری دیانت کی سیکڑوں مثالیں ملتی ہیں، سودا طے ہوتے وقت فروخت کار خریدار کو مال میں موجود نقص کے متعلق بتانا بھول گیا یا دانستہ چھپا گیا، بعد میں جب فروخت کار کو یاد آیا تو وہ میلوں خریدار کے پیچھے مارا مارا پھرا اور غیر مسلم، مسلم تاجر کی اس دیانت داری کو دیکھ کر اسلام لے آیا، انڈونیشیا کے باشندے دیانتدار مسلم تاجروں کے ذریعے ہی حلقہ بگوش اسلام ہوئے تھے۔
حضرت عمرؓ نے ایسے تاجروں کے خلاف عملی اقدام کر کے ثابت کیا کہ اسلام ایسے افراد کے وجود کو ایک لمحہ کیلئے بھی برداشت نہیں کر سکتا جو محض دولت کی ہوس کی خاطر عوام الناس کو مصیبت میں مبتلا کرنے کے ناقابل معافی جرم کے مرتکب ہوں، اسلام خریدار اور فروخت کار کے درمیان آزاد اور کھلے مقابلہ کی نہ صرف اجازت دیتا ہے بلکہ اس کی تاکید اور حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے۔
اسلامی تجارت کا دوسرا اصول دیانت داری ہے، یعنی لین دین کھلا صاف صاف او برسرعام ہونا چاہیے، مال کی اصل کیفیت گاہک کے سامنے رکھ دینا چاہیے اور کسی قسم کا دھوکہ فریب نہ ہو، تجارت کو فروغ دینے کے خفیہ ہتھکنڈے مثلاً ناپ تول میں کمی، وعدہ خلافی، خیانت، بددیانتی وغیرہ اختیار کرنا جائز نہیں ہے۔