آمنہ مفتی کا کالم: ’غریب کے غیر محفوظ بچے‘

  • آمنہ مفتی
  • مصنفہ و کالم نگار
پاکستانی بچے

،تصویر کا ذریعہGetty Images

پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کی حکومت کا مشیر چائلڈ پورنو گرافی کے عالمی گینگ کا حصہ نکلا۔ یہ خبر بڑی بڑی خبروں اور سیاسی داؤ پیچ کی داستانوں میں دب سی گئی۔

ممکن ہے چند روز میں اس ملزم کی ضمانت ہو اور وہ ملک سے باہر چلا جائے۔ بات ہمیشہ کی طرح دب جائے اور بچوں کے خلاف یہ جرم اسی طرح جاری رہے۔

جب پانی سر سے گزر جائے تو ایک قربانی کے بکرے کو پکڑ کے اس پر کئی کیس ڈال دیے جائیں۔ جذباتی عوام اسے سر عام پھانسی دینے کا مطالبہ کریں، اصلاح معاشرہ والے یہ فتویٰ دیں کہ یہ سب مغرب کی اندھی تقلید کا نتیجہ ہے۔

کوئی بچوں کو جنسی تعلیم دلوانے کی اہمیت پر زور دے، چینل مالکان اس موضوع پر ڈرامے بنا ڈالیں اور یوں عوامی غم وغصہ چند برس کے لیے سرد پڑ جائے۔

لوگ پھر سے اپنے کام دھندوں میں مصروف ہو جائیں اور ہمارے بچے ایک بار پھر ’چائلڈ پورنو گرافی‘ اور ’پیڈیو فائلز‘ کی عالمی منڈی کے خام مال کے طور پر استعمال ہوتے اور جان سے جاتے رہیں۔

یہ مفروضہ پچھلے پانچ، چھ برس میں دو تین بار پیش کیا گیا کہ دنیا میں’پیڈیو فائلز‘ کی ایک منڈی موجود ہے اور یہ ویڈیوز وہاں پہنچائی جاتی ہیں۔

کچھ حقائق بھی سامنے لائے گئے مگر جانے کیوں ان خطوط پر نہ تو کوئی خاص تفتیش کی گئی اور نہ ہی لوگوں نے اس بات کو سنجیدگی سے لیا۔

آمنہ مفتی کے دیگر کالم پڑھیے

مجرم عمران علی

،تصویر کا ذریعہPFSA

قصور اور چونیاں والے کیس خاصے پیچیدہ تھے اس حوالے سے کئی شواہد بھی سامنے موجود تھے۔ بہت سی ایسی باتیں تھیں جو عقل اس طرح تسلیم نہیں کرتی تھی جیسا کہ تسلیم کرائی جا رہی تھیں۔

جب قصور اور چونیاں والے کیس سامنے آئے تب بھی میرے ذہن میں یہ ہی سوال آیا کہ کہیں یہ بچے کسی گینگ کے ہتھے تو نہیں چڑھے؟

مگر نہایت تیزی سے تفتیش ہوئی، ملزم گرفتار ہوا اور پتہ چلا کہ وہ خود بھی اسی جرم کا شکار بنتا آیا ہے۔ کیس حل ہوا، بات ختم ہوئی۔ اس سے پہلے مجرم عمران کے معاملے میں بھی تفتیش اسی طرح ہوئی اور بات ختم کر دی گئی۔

بات یہاں ختم نہیں ہوئی۔ ’ہیومن ٹریفکنگ‘ ہو، بچوں کو خرکار کیمپوں میں پہنچانے کا معاملہ ہو یا اسی قبیل کا کوئی اور جرم، اکثر اس کے تانے بانے ان لوگوں سے جا کر ملتے ہیں جو بظاہر خواتین، بچوں یا معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کے لیے بنائے گئے اداروں میں بیٹھے ہو تے ہیں۔

مذکورہ کیس میں تو ملزم برطانیہ اور اٹلی میں بھی بچوں کے تحفظ کے اداروں کی آڑ میں بچوں کے بارے میں تفصیلات ’پیڈیو فائلز‘ کو مہیا کرتا رہا۔

ایک مشہور گلوکار کے بارے میں بھی ایسی خبریں گردش کرتی رہی تھیں کہ وہ بچوں سے قریب ہو کے، بظاہر ان کے لیے کام کر کے اصل میں جرم کا مرتکب ہوتا رہا۔

سہیل ایاز

،تصویر کا ذریعہRAWALPINDI POLICE

یہ شخص جس کا نام سہیل ایاز بتایا جا رہا ہے صرف اس وجہ سے پکڑا گیا کہ ایک گم شدہ بچے کی ماں نے پولیس میں رپورٹ درج کرائی تھی۔ حیرت یہ کہ رپورٹ درج بھی ہو گئی اور ایک بڑی مچھلی گرفتار بھی ہو گئی، چونکہ ایسا ہونا ہمارے ہاں کی روایت نہیں اس لیے دل میں خوامخواہ کے گمان چلے آ رہے ہیں۔

مزید خبریں یہ بھی سن رہے ہیں کہ سہیل ایاز کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ ’پیڈیو فائلز‘ پر چلانے والا میڈیا اس وقت کسی اور طرف مصروف ہے۔ کسی کے ذہن میں یہ بات نہیں آ رہی کہ سہیل اکیلا نہیں ہے ایسے بہت سے ہیں اور یہ ہر وقت بچوں کے لیے بھیڑیے کی طرح منہ چیرے پھر رہے ہیں۔

پاکستان کی اکثریت غریب ہے اور یہ غریب پسماندہ لوگ نہ خاندانی منصوبہ بندی کو سمجھ اور اختیار کر سکتے ہیں اور نہ ہی اپنے سات سات بچوں کو بنیادی انسانی سہولیات دے سکتے ہیں۔ ان بچوں کو کم عمری میں نہ صرف اپنے لیے روٹی کمانا پڑتی ہے بلکہ باپ کے لیے سگریٹ کا انتظام کرنا ہوتا ہے اور بیمار ماں کے لیے گلوکوز کی بوتل کے پیسے بھی کمانے ہوتے ہیں۔

یہ معصوم ان بھیڑیوں کے لیے تر نوالہ ثابت ہوتے ہیں۔ چرسی باپ اور روگی ماں کو بچے کے بدلے اطوار سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ وہ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ بچے پیسے کہاں سے لا رہے ہیں۔؟ چنانچہ یہ بچے اس قسم کے لوگوں کے لیے ہر وقت میسر رہتے ہیں۔ انھیں زیادہ تر ڈرا کر اور بلیک میل کر کے استعمال کیا جا تا ہے۔

بات تب باہر نکلتی ہے جب ان ہی بچوں کے عادی مجرم کسی ایسے بچے پر ہاتھ ڈال بیٹھتے ہیں جو ماں باپ کا پیارا ہوتا ہے۔ وہ بچہ احتجاج بھی کرتا ہے اور اسی وجہ سے مار بھی دیا جاتا ہے اور بچ جائے تو مجرم کی نشاندہی بھی کر دیتا ہے۔

ایسا بہت کم ہوتا ہے اور جب ہوتا ہے تو لوگوں میں غم و غصہ بھی پیدا ہوتا ہے اور مجرم ڈھونڈ بھی لیے جاتے ہیں۔ چند ہی گھنٹوں میں ڈی این اے رپورٹ بھی آ جاتی ہے۔ پریس کانفرنس بھی ہو جاتی ہے اور مجرم کیفر کردار تک بھی پہنچ جاتا ہے۔

سہیل ایاز کیس اگر دیگر کیسوں کی طرح پراسرار حالات میں فوراً حل یا داخل دفتر نہ ہوا تو بہت کچھ سامنے آ سکتا ہے اور وہ بے چارے بچے جو اصل میں اپنے گھروں کے بڑے ہیں اور ماں باپ کے ہوتے ہوئے یتیم ہیں ان درندوں سے بچ سکتے ہیں ورنہ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا اور ہم گاڑی کے آگے گھوڑا جوتنے کی سعی لاحاصل میں اسی طرح سر گرداں رہیں گے۔