پاکستان ریلوے کی ٹرین سفاری: انگریز دور کے سٹیم انجن جو اب بھی ’وفا نبھا رہے ہیں‘

  • ترہب اصغر
  • بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور
ریلوے

’یہ سٹیم انجن ہمیں پاکستان کی آزادی کے وقت جہیز میں ملے تھے اور یہ پاکستان ریلوے کے ساتھ ایک عرصہ دراز سے وفا نبھا رہے ہیں۔‘

یہ الفاظ پاکستان ریلوے کی مغلپورہ ورکشاپ میں 34 برس سے کام کرنے والے انجینیئر محمد فائق کے ہیں جو اس وقت ان سٹیم انجنوں کو دوبارہ پٹری پر ڈالنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔

سیاحت کو فروغ دینے کے لیے پاکستان ریلوے کی مغلپورہ ورکشاپ میں 103 سال پرانے سٹیم انجنز کی بحالی کا کام جاری ہے جنھیں سفاری ٹرین کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔

سفاری ٹرین پاکستان کے چار سے پانچ مختلف روٹس پر چلائی جائیں گی۔ سٹیم انجن کی مرمت میں انجینیئرز کو مشکلات درپیش ہونے کے باوجود بھی ان کا کہنا ہے کہ وہ ان انجنز کی بحالی کا کام اس سال کے آخر تک مکمل ہو جائے گا۔

مزید پڑھیے

،ویڈیو کیپشنپاکستان ریلوے: زوال پذیر سٹیم انجن پٹریوں پر’چھک چھک‘ کرنے کو تیار

سیاحتی ٹرینیں کہاں سے کہاں تک؟

پاکستان میں سٹیم انجن سفاری ٹرین کا دوبارہ چلنا کوئی نئی بات نہیں ہوگی۔ اس سے قبل بھی سفاری ٹرین پشاور سے لنڈی کوتل تک سیاحوں کے لیے چلائی جاتی تھی۔ جس میں سفر کرنے والے زیادہ ترغیر ملکی سیاح تھے۔

ترجمان ریلوے اعجاز شاہ کےمطابق پشاور تا لنڈی کوتل ٹریک پر چلنے والی ٹرین کو 2008 میں آنے والے سیلاب کے باعث لنڈی کوتل پل ٹوٹنے کے بعد بند کر دیا گیا تھا۔

ترجمان ریلوے کے مطابق پشاور تا لنڈی کوتل کے درمیان چلنے والے ٹرین میں دوران سفر سیاحوں کو کسی قسم کی کھانے پینے کی اشیا مہیا نہیں کی جاتی تھیں۔ جبکہ جمرود کے مقام پر سیاحوں کےلیے کھانے کا اہتمام کیا جاتا تھا۔جمرود سے آگے سیاحوں کو ٹرین پر افغان بارڈر تک لے جایا جاتا تھا جہاں بارڈر کی سیر بھی کروائی جاتی تھی۔

پاکستان ریلوے ایسی ہی سہولیات نئی ٹرینوں میں متعارف کروانےکا ارداہ رکھتی ہے۔ جبکہ سفاری ٹرین کی ٹکٹ کی قیمت کا فی الحال تعین نہیں کیا گیا۔

ریلوے حکام کا کہنا ہے کہ سفاری ٹرین کا ٹکٹ عام ٹرین سے مہنگا ہوگا کیونکہ یہ خصوصی طور پر سیاحت کے لیے استعمال کی جانی ہے۔

رواں سال ایک پریس کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر ریلوے شیخ رشید نےاعلان کیا تھا کہ پاکستان ریلوے سیاحت کو فروغ دینے کے لیے مختلف روٹس پر سفاری ٹرینز چلانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ان ٹرینوں کو پشاور تا اٹک خورد، راولپنڈی تا ٹیکسلا، کراچی تا کینجھر لیک اور لاہور تا چھانگا مانگا تک چلایا جائے گا۔

ریلوے

سٹیم انجن اور مغلپورہ لوکوموٹو ورکشاپ

اگر تاریخ پر نظر ڈالیں تو لاہور کی مغلپورہ ورکشاپ ایک صدی سے زائد عرصے سے سٹیم انجنوں کی دیکھ بھال جاری رکھے ہوئے ہے۔

یہ ورکشاپ سنہ 1912 میں تعمیر کی گئی اور پاکستان ریلوے کی اس ورکشاپ میں ٹرین انجن کی مرمت کے علاوہ نئے سرے سے انجن کی تعمیر کا کام بھی کیا جاتا ہے۔

اس وقت مغلپورہ ورکشاپ میں چار سٹیم انجن کھڑے ہیں جن میں سے دو کی بحالی کا کام دسمبر 2019 یا آئندہ برس کے اوائل میں مکمل کر لیا جائے گا۔

محمد فائق کے مطابق ان انجنز کو مکمل طور پر تیار کرنے کے بعد راولپنڈی ڈویژن میں ریلوے کے حکام کے حوالے کر دیا جائے گا۔ انھوں نے مزید بتایا کہ یہ سٹیم انجن ’راولپنڈی سے ٹیکسلا، پشاور سے لنڈی کوتل اور لاہور سے چھانگا مانگا کے درمیان چلائے جائیں گے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ دیگر دو انجنوں میں ابھی بھی کافی زیادہ کام کی ضرورت ہے اور ان کی تیاری میں ابھی مزید وقت درکار ہے۔

پاکستان میں اس وقت پانچ سٹیم لوکوموٹو موجود ہیں جن میں انجن نمبر 2277، 2303، 2306، 2264 اور 2216 شامل ہیں۔ ان سٹیم لوکوموٹِو انجنوں کو 1988 تک ریلوے پٹریوں پر چلایا گیا۔

اس کے بعد انھیں کچھ عرصے کے لیے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں مختلف راستوں پر استعمال کیا گیا جبکہ لنڈی کوتل پل کے ٹوٹنے کے بعد انھیں مکمل طور پر سروس سے باہر لے جایا گیا تھا۔

ریلوے

سٹیم لوکوموٹو کیسے کام کرتے ہیں؟

محمد فائق نے سٹیم لوکوموٹوز کے سسٹم سے متعلق بتایا کہ اس کے دو حصے ہوتے ہیں، جس میں ایک کو انجن کا حصہ کہا جاتا ہے اور دوسرے کو ٹینڈر کا حصہ کہا جاتا ہے۔

ٹینڈر کا حصہ پانی اور تیل کی سپلائی کرتا ہے جبکہ ٹینڈر کے ایک حصے میں تیل ڈالا جاتا ہے اور دوسرے حصے میں پانی ڈالا جاتا ہے۔

ان انجنوں کے ٹینڈر کے حصے میں آٹھ ٹن تیل اور چار ہزار گیلن پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش والا آئل فائر باکس لگایا جائے گا۔ انھوں نے بتایا کہ ’سٹیم انجن میں آگ کے ذریعے پانی کو گرم کیا جاتا ہے تو اس سے جو بھاپ نکلتی ہے اس کو استعمال کر کے انجن کو چلایا جاتا ہے۔محمد فائق نے بتایا کہ ابھی انھیں بوائلر کے آنے کا انتظار ہے اور جیسے ہی بوائلر آ جائے گا تو وہ ان دونوں حصوں کو جوڑ دیں گے جسے سٹیم لوکوموٹو کہیں گے۔ ان دونوں حصوں کو جوڑنے کے بعد انجن کو ٹرین کی بوگیوں کے آگے لگا کر انھیں پٹڑی پر چلایا جائے گا۔

اس وقت ورکشاپ میں دو لوکوموٹو تیار کیے جا رہے ہیں جس میں سے ایک انجن کی بحالی کا کام آخری مراحل میں ہے۔

محمد فائق نے بتایا کہ ’ہم اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ کسی قسم کی کمی رہ گئی ہے تو اسے درست کرلیں تاکہ جب یہ انجن پٹری پر چلیں تو کسی قسم کا مسئلہ نہ ہو۔‘

ریلوے

سٹیم انجن کی تیاری میں درپیش مسائل

لاہور مغلپورہ ورکشاپ کے انجینیئر محمد فائق کے مطابق وہ چوبیس سال کی عمر میں اس ورکشاپ میں آئے تھے اور اتنا عرصہ گزارنے کے بعد انھیں ’سٹیم انجنز سے پیار‘ ہو گیا ہے۔

محمد فائق نے بتایا کہ سٹیم لوکوموٹو کا ماہر کاریگر تیار کرنے میں کم از کم 20 سے 25 سال کا عرصہ لگتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اب محسوس ہوتا ہے کہ چونکہ یہ الگ قسم کی ملازمت ہے اس لیے گذشتہ کئی سالوں سے ہمیں ماہر ورکرز کی کمی کا سامنا ہے۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ ’اس وقت کُل 25 سے 30 کاریگر بچ گئے ہیں جن میں ماہر کاریگر صرف سات یا آٹھ ہیں اور آنے والے دنوں میں ان میں مزید کمی آئے گی کیونکہ ان میں سے بیشتر ریلوے کی ملازمت سے ریٹائر ہونے والے ہیں۔‘

سٹیم انجن تقسیمِ ہند سے پہلے کے ہیں اور انھیں بنانے والی کمپنی ولکن فاؤنڈری اور دیگر کمپنیاں بھی بند ہو چکی ہیں اس لیے ان سٹیم انجنز کے پُرزے دستیاب نہیں ہیں جس کے باعث فائق اور ان کی ٹیم کو اپنے طور پر پرزے تیار کرنے پڑتے ہیں۔

ان کے مطابق پاکستان ریلوے نے ان انجنز پر اس طرح توجہ نہیں دی جن کے یہ مستحق تھے۔