روہنگیا: میانمار میں مسلمانوں کے دیہات سرکاری عمارتوں کی خاطر مسمار

  • جوناتھن ہیڈ
  • نامہ نگار، جنوب مشرقی ایشیا
روہنگیا
،تصویر کا کیپشنکئی مقامات پر روہنگیا برادری کے دیہات صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں

میانمار میں بی بی سی نے دیکھا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کے پورے پورے دیہات مسمار کر کے وہاں پولیس بیرک، سرکاری عمارتیں اور پناہ گزینوں کے کیمپ قائم کر دیے گئے ہیں۔

ایک سرکاری دورے کے دوران بی بی سی نے چار ایسی جگہیں دیکھیں جہاں پہلے سیٹلائٹ سے لی گئیں تصاویر کے مطابق روہنگیا آبادیاں تھیں، مگر اب وہاں پرشکوہ عمارتیں بنا دی گئی ہیں۔ تاہم حکام نے اس بات کی تردید کی ہے۔

2017 میں ایک ملٹری آپریشن کے دوران سات لاکھ سے زائد روہنگیا افراد میانمار سے بھاگ نکلے تھے۔

اقوامِ متحدہ نے اسے 'نسل کشی کا مثالی کیس' قرار دیا ہے تاہم برما کے نام سے بھی جانے جانے والے ملک میانمار نے اپنی فورسز کی جانب سے وسیع پیمانے پر قتل کی تردید کی ہے۔

بودھ اکثریتی ملک میانمار مسلسل اپنے فوجیوں کی جانب سے نسل کشی کی تردید کرتا رہا ہے۔ اب اس کا کہنا ہے کہ وہ کچھ پناہ گزینوں کو واپس لینے کے لیے تیار ہے۔

یہ بھی پڑھیے

مگر گذشتہ ماہ روہنگیا پناہ گزینوں کی واپسی شروع کرنے کی ایک دوسری کوشش اس وقت ناکام ہوگئی جب میانمار کی جانب سے منظور کیے گئے تمام 3450 افراد نے واپس جانے سے انکار کر دیا۔ انھوں نے 2017 میں کیے گئے ’مظالم‘ کا احتساب نہ ہونے کا حوالہ دیتے ہوئے بے یقینی کا اظہار کیا کہ آیا انھیں نقل و حمل کی آزادی یا شہریت ملے گی بھی یا نہیں۔

میانمار نے بنگلہ دیش پر الزام لگایا ہے کہ روہنگیا کی واپس آنے کے حوالے سے ہچکچاہٹ کے پیچھے ڈھاکہ کا ہاتھ ہے۔ میانمار کا دعوی ہے کہ وہ بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کو لینے کے لیے تیار ہے اور یہ ثابت کرنے کے لیے انھوں نے بی بی سی سمیت کئی صحافیوں کو پناہ گزینوں کے لیے قائم کی گئی سہولیات دکھانے کے لیے مدعو کیا۔

ریاست رخائن تک رسائی پر عموماً سخت پابندیاں عائد ہوتی ہیں۔ ہم نے ایک سرکاری قافلے کے ساتھ سفر کیا اور ہمیں پولیس کی نگرانی کے بغیر ویڈیو بنانے یا لوگوں کا انٹرویو کرنے کی اجازت نہیں تھی۔

مگر ہمیں یہاں روہنگیا برادری کے خاتمے کے لیے ہونے والی منصوبہ بندی کے واضح ثبوت نظر آئے۔

سیٹلائٹ کے ذریعے حاصل کی جانے والی تصاویر کا تجزیہ کرنے والے ادارے آسٹریلین سٹریٹجک پالیسی انسٹیٹیوٹ کا اندازہ ہے کہ 2017 میں جن روہنگیا دیہات کو نقصان پہنچا تھا، ان میں سے 40 فیصد اب مکمل طور پر مسمار کر دیے گئے ہیں۔

بی بی سی نے میانمار میں کیا دیکھا؟

حکومت ہمیں ہلا پو کاؤنگ ٹرانزٹ کیمپ لے گئی جہاں ان کے مطابق واپس آنے والے 25 ہزار افراد رہ سکتے ہیں۔ حکومت کے مطابق انھیں مستقل رہائش گاہوں میں منتقل کرنے سے قبل دو ماہ کے لیے یہاں رکھا جائے گا۔

تقریباً ایک سال پہلے مکمل ہونے والا یہ کیمپ کافی خراب حالت میں ہے۔ مشترکہ استعمال کے لیے بنائے گئے ٹوائلٹ اب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ یہ کیمپ 2017 میں ہونے والے تشدد کے بعد مسمار ہونے والے دو روہنگیا دیہات، ہاو ری تو لار اور تھار زے کون کے مقام پر تعمیر کیا گیا ہے۔

روہنگیا
،تصویر کا کیپشنہلا پو کاؤنگ ٹرانزٹ کیمپ مسمار کیے گئے دو روہنگیا دیہات کی جگہ پر بنایا گیا ہے۔ یہاں 25 ہزار روہنگیا پناہ گزینوں کو دو ماہ تک رکھا جائے گا

جب میں نے کیمپ کے منتظم سو شوی آؤنگ سے پوچھا کہ انھوں نے دیہات کیوں مسمار کیے تو انھوں نے کسی بھی دیہات کی مسماری سے انکار کیا۔ مگر جب ہم نے سیٹلائٹ تصاویر پر ان کی نشاندہی کی تو انھوں نے کہا کہ وہ حال ہی میں اس عہدے پر آئے ہیں چنانچہ وہ اس بارے میں جواب نہیں دے سکیں گے۔

اس کے بعد ہمیں ایک ’ری لوکیشن کیمپ‘ چائین چاؤنگ لے جایا گیا جہاں انڈین اور جاپانی حکومت کی فنڈنگ سے واپس آنے والے پناہ گزینوں کے لیے طویل مدتی رہائش کے لیے گھر بنائے گئے ہیں۔ مگر میار زِن کہلانے والا ایک روہنگیا گاؤں اس کیمپ کی زمین کے حصول کے لیے مسمار کر دیا گیا تھا۔

یہ کیمپ بارڈر گارڈ پولیس کے لیے تعمیر کی گئی نئی بیرکس کے پاس ہی واقع ہے۔ سکیورٹی فورسز کے اس یونٹ پر روہنگیا برادری کی جانب سے 2017 میں سنگین استحصال کے الزامات عائد کیے گئے۔ یہاں پر کیمرا بند ہونے کے بعد حکام نے میار زِن کی مسماری کی تصدیق کی۔

یہ بھی پڑھیے

مرکزی شہر ماؤنگ ڈو سے تھوڑا ہی باہر میو تھو گائی ہے جہاں کبھی 8000 سے زائد روہنگیا برادری کے افراد بستے تھے۔

میں ستمبر 2017 میں ایک اور حکومتی قافلے کے ساتھ سفر کرتے ہوئے میو تھو گائی کے پاس سے گزرا تھا اور اس کی ویڈیو بنائی تھی۔ کئی گھر جلا دیے گئے تھے مگر بڑی عمارتیں تب بھی قائم تھیں اور عموماً رخائن دیہات جن درختوں سے گھرے ہوتے ہیں وہ بھی وہیں تھے۔

مگر جہاں کبھی میو تھو گائی واقع تھا، اب وہاں سے گزرتے ہوئے ایک بڑی حکومتی عمارت اور پولیس کمپلیکس نظر آتا ہے۔ درخت بھی غائب ہو چکے ہیں۔

ہمیں اِن ڈِن بھی لے جایا گیا۔ یہ وہی گاؤں ہے جو ستمبر 2017 میں پکڑے گئے 10 مسلمان مردوں کے قتلِ عام کی وجہ سے بدنام ہے جبکہ یہ ان چند واقعات میں سے ہے جنھیں میانمار کی فوج قبول کرتی ہے۔

اِن ڈِن کی تقریباً تین چوتھائی آبادی مسلمان جبکہ باقی کا تعلق رخائن بودھ مسلک سے تھا۔ لیکن آج مسلمان آبادی کا یہاں نام و نشان نہیں ہے جبکہ رخائن علاقہ پرسکون اور پرامن ہے۔

لیکن اگر آپ وہاں جائیں جہاں کبھی روہنگیا برادری کے گھر ہوتے تھے تو درخت غائب ہوچکے ہیں اور ان کی جگہ خاردار تاروں نے لے لی ہے جو کہ حال ہی میں تعمیر شدہ بارڈر گارڈ پولیس کی وسیع و عریض بیرکس کا احاطہ کرتی ہیں۔

یہاں کے رخائن بودھ رہائشیوں نے ہم سے کہا کہ وہ اپنے پڑوس میں مسلمانوں کا دوبارہ بسنا کبھی بھی قبول نہیں کریں گے۔

،ویڈیو کیپشنروہنگیا دیہات کون نذرآتش کر رہا ہے؟

پناہ گزینوں کے لیے اس کا مطلب کیا ہے؟

2017 کی پرتشدد فوجی مہم کے خاتمے کے کافی عرصے بعد بھی روہنگیا آبادیوں کی وسیع پیمانے پر تباہی جاری رہنے کا مطلب تھا کہ کچھ ہی پناہ گزین واپس آ کر اپنی پرانی زندگیوں اور آبادیوں میں واپس جا سکیں گے۔

پناہ گزینوں کی بڑے پیمانے پر واپسی کی نظر آنے والی تیاریوں میں صرف ہلا پو کاؤنگ جیسے خستہ حال ٹرانزٹ کیمپس ہیں یا پھر چائین چاؤنگ جیسے ری لوکیشن کیمپ۔ شاید کم ہی پناہ گزین اس طرح کے مستقبل کے لیے دو سال قبل جھیلے گئے صدمے کو بھلا پائیں گے اور اس سے پناہ گزینوں کو واپس لینے کے میانمار کے عہد پر سوالات اٹھتے ہیں۔

میں یینگون واپس جاتے ہوئے ایک نوجوان، دربدر روہنگیا سے ملا۔ ہمیں خفیہ انداز میں ملنا تھا کیونکہ غیر ملکی شہری اجازت کے بغیر روہنگیا برادری کے افراد سے نہیں مل سکتے۔

انھیں سِٹوے کے علاقے میں اپنے گھر سے نکال دیا گیا تھا اور وہ اپنے خاندان کے ساتھ سات سال سے ایک آئی ڈی پی کیمپ میں پھنسے ہوئے ہیں۔ 2012 میں اٹھنے والی اس تشدد کی لہر میں ایک لاکھ 30 ہزار روہنگیا اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے۔

وہ یونیورسٹی نہیں جا سکتے اور نہ ہی اجازت کے بغیر کیمپ سے باہر جا سکتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں رہنے والوں کے لیے ان کا مشورہ ہے کہ وہ واپس آنے کا خطرہ نہ مول لیں کہ کہیں وہ بھی ان کی طرح کڑی نگرانی والے کیمپوں میں نہ پہنچا دیے جائیں۔

حکومت کا کیا کہنا ہے؟

ہم نے رخائن میں جو دیکھا، اس پر میانمار حکومت کا موقف لینے کے لیے ان کے ترجمان سے رابطہ کیا مگر ہمیں کوئی جواب نہیں ملا ہے۔

باضابطہ طور پر تو حکومت بنگلہ دیش کے تعاون سے پناہ گزینوں کی مرحلہ وار واپسی کے لیے پرعزم ہے مگر حکومتی وزرا اب بھی روہنگیا افراد کو بنگالی کہتے ہیں جو ان کے مطابق وہ گذشتہ 70 سالوں میں غیر قانونی ہجرت کے ذریعے یہاں آئے۔

یہ میانمار کی اس عمومی سوچ کی عکاسی کرتا ہے کہ روہنگیا یہاں سے تعلق نہیں رکھتے۔ حکومت نے روہنگیا افراد کی نقل و حمل کی آزادی اور شہریت کی درخواستوں کو رد کر دیا ہے۔

حکومت انھیں نیشنل ویریفیکیشن کارڈ نامی دستاویز دینے کو تیار ہے جو اس کے مطابق بعد میں شہریت کے حصول کی جانب قدم ہو سکتے ہیں۔ مگر زیادہ تر روہنگیا ان کارڈز کو یہ کہہ کر مسترد کرتے ہیں کہ اس کے لیے انھیں خود کو بنگالی تسلیم کرنا ہوگا۔

روہنگیا
،تصویر کا کیپشناِن ڈِن گاؤں میں اب مسلمان آبادی کا نام و نشان تک نہیں ہے۔ یہ ان چند زیادتیوں میں سے ایک کی سائٹ ہے جنھیں میانمار کی فوج تسلیم کرتی ہے

ستمبر 2017 کے اوائل میں جب روہنگیا برادری کے خلاف فوجی کارروائی عروج پر تھی تو میانمار کی مسلح افواج کے کمانڈر جنرل من آؤنگ ہلائنگ نے کہا تھا کہ وہ 1942 میں 'ادھورا رہ جانے والا' کام مکمل کر رہے ہیں۔

ان کا اشارہ اس وقت رخائن میں جاپانی اور برطانوی فورسز کے درمیان ہونے والی لڑائی کی جانب تھا جس میں روہنگیا اور رخائن کے بودھ دونوں نے الگ الگ فریقوں کی حمایت کی تھی اور اکثر واقعات ایک دوسرے کو قتل بھی کیا تھا۔ کمانڈر کا کہنا تھا کہ آج جو بنگلہ دیش کے ساتھ سرحد ہے، مسلمان اسے پار کر کے رخائن ریاست کے شمالی حصے میں آ گئے تھے۔

میانمار میں ماؤنگ ڈو اور بودے ڈاؤنگ کے دو سرحدی اضلاع وہ واحد خطے ہیں جہاں مسلم اکثریت تھی۔ سنہ 2017 سے اب تک تباہ کیے گئے زیادہ تر دیہات یہیں قائم تھے۔ روہنگیا برادری کے نکل جانے کے بعد یہاں باقی بچ جانے والے مسلمان اباقلیت میں ہوں گے۔

قابلِ اعتبار تحقیقات کی اجازت، نقل و حمل کی آزادی یا پھر شہریت کی جانب واضح راستہ دینے سے حکومت کا انکار زیادہ تر پناہ گزینوں کی واپسی کی امیدوں کی حوصلہ شکنی کرے گا۔ اس سے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان توازن جیسا ہے، ویسا ہی رہ جائے گا۔

شاید وہ 'ادھورا رہ جانے والا' کام اب پورا ہو چکا ہے۔