ان کے والد ڈاکٹر دین محمد بلوچ نے بولان میڈیکل یونیورسٹی سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد سرکاری ملازمت اختیار کی تھی۔
انھوں نے بتایا کہ ابھی انھیں کوئٹہ آئے ہوئے تین، چار روز ہوئے تھے کہ ان کے ڈیوٹی پر واپس آنے کو کہا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے والد زمانہ طالب علمی سے ایک سیاسی کارکن تھے اور اس کے علاوہ ان کا کوئی جرم اور قصور نہیں تھا۔ عدالتوں میں اس حوالے سے درخواستوں کی سماعت کے دوران سرکاری حکام کی جانب سے یہ بھی بتایا جاتا رہا کہ جن لوگوں لاپتہ قرار دیا جا رہا ہے وہ فراری کیمپوں میں ہیں یا بیرون ملک گئے ہیں۔ اس حوالے سے افغانستان کے جنوب مغربی حصوں کے بعض علاقوں کا نام بھی لیا جاتا رہا ہے۔
سمی بلوچ کا کہنا تھا کہ موسم کی سختیوں کے باوجود میں نے دیگر لوگوں کے ساتھ یہ طویل مارچ لوگوں کو یہ یقین دلانے کے لیے کیا کہ میرے والد کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے۔ انھوں نے بھرائی ہوئی آواز میں بتایا کہ ’جب ہم گھر میں کوئی اچھا کھانا کھاتے ہیں تو اس وقت والد کی یاد آتی ہے اور ہم سوچتے ہیں کہ ان کو کھانا ملتا بھی ہے یا نہیں۔‘
پاکستان تازہ ترین خبریں, پاکستان عنوانات
Similar News:آپ اس سے ملتی جلتی خبریں بھی پڑھ سکتے ہیں جو ہم نے دوسرے خبروں کے ذرائع سے جمع کی ہیں۔
ذریعہ: Aaj_Urdu - 🏆 8. / 63 مزید پڑھ »
ذریعہ: Waqtnewstv - 🏆 10. / 59 مزید پڑھ »
ذریعہ: Nawaiwaqt_ - 🏆 6. / 63 مزید پڑھ »
ذریعہ: AbbTakk - 🏆 2. / 68 مزید پڑھ »
ذریعہ: DailyPakistan - 🏆 3. / 63 مزید پڑھ »
ذریعہ: DunyaNews - 🏆 1. / 83 مزید پڑھ »