وہ باہمت لڑکی جس نے مکمل مفلوج ہونے پر بھی جینے کی امید نہ چھوڑی

لیزیا

،تصویر کا ذریعہPERSONAL FILE

  • مصنف, برونا آلویس
  • عہدہ, بی بی سی نیوز، ساؤ پاؤلو، برازیل

تیس برس کی عمر میں ایک کامیاب خاتون وکیل لیزیا ڈنیئل ’ٹرانزینٹ ایسکیمک اٹیک‘ (ٹی آئی اے) کا شکار ہوئیں تھیں۔ (’ٹرانزینٹ ایسکیمک اٹیک‘ نامی اس مرض میں دماغ تک خون کی رسائی میں عارضی طور پر رکاوٹ آ جاتی ہے۔ اسے فالج کی ایک قسم بھی کہا جاتا ہے۔)

اس کے بعد انھیں دو مرتبہ فالج کا حملہ ہوا۔ وہ 25 روز تک ہسپتال کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل رہیں اور اس دوران ان کے پورے جسم نے حرکت کرنا چھوڑ دی تھی اور وہ صرف آنکھوں کے اشاروں سے اپنی بات سمجھانے کی کوشش کرتی تھیں۔

صحت یابی کے بعد انھوں نے بی بی سی نیوز کو اپنی روداد بتاتے ہوئے کہا کہ ’اس مرض یا فالج کے حملے سے قبل میں بہت کام کرتی تھی۔

’میں دو لا فرمز کی انچارج تھی، جس کی وجہ سے مجھے بہت زیادہ سفر کرنا پڑتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ عدالتوں میں مقدمات کی سماعت، سائلین سے ملاقاتیں اور بہت سی دیگر ذمہ داریاں تھیں جنھیں پورا کرنے کے لیے میں ہر وقت کام میں مگن رہتی تھی۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ ’اس سب کے باوجود میں اچھی خوراک کھاتی تھی، ورزش کرتی تھی، اپنا باقاعدہ طبی معائنہ کرواتی تھی، کبھی کبھار شراب نوشی کرتی تھی، لیکن کبھی تمباکو نوشی نہیں کی تھی۔‘

اس لیے وہ سمجھتی ہیں کہ کام کی زیادتی کے نتیجے میں وہ فالج کے حملوں کا شکار ہوئی تھیں۔

یہ سب کچھ جولائی 2019 میں شروع ہوا تھا۔

لیزیا ڈنیئل چھٹیوں پر جانے والی تھیں جب انھیں اپنی گردن میں اکڑاہٹ محسوس ہونا شروع ہوئی۔

انھوں نے کسی ڈاکٹر کو دکھانے کی بجائے خود ہی چند ادویات استعمال کی اور دوبارہ اپنے کاموں میں مشغول ہو گئیں۔ اس کے چند دن بعد ہی انھیں اپنے کانوں میں گھنٹیاں سنائی دیں اور تب انھوں نے ناک، کان اور گلے کے ماہر ڈاکٹر کو دکھانے کا فیصلہ کیا۔

ان کا ابتدائی طبی معائنہ ہوا تاہم انھیں صحت مند قرار دے دیا گیا۔ البتہ انھیں کچھ دافع درد ادویات ضرور دی گئیں۔

اس کے بعد لیزیا نے دوبارہ اگلے ماہ اپنی چھٹیوں کے پلان پر توجہ مرکوز کر دی۔ مگر جب لیزیا نے ڈاکٹر کی تجویز کردہ ادویات کا چند روز بعد استعمال بند کیا تو ان کی گردن میں اکڑاہٹ اور درد ایک مرتبہ پھر لوٹ آیا۔

اس درد کی وجہ سے وہ بمشکل بستر سے اٹھ سکتیں اور کچھ کھا پی نہیں سکتی تھیں۔ وہ ایک مرتبہ دوبارہ معائنے کے لیے ہسپتال گئیں۔

لیزیا

،تصویر کا ذریعہPersonal File

وہ یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ’میں چار پانچ مرتبہ معائنے کے لیے ہسپتال گئی تھی لیکن وہ مجھے ہونے والے ٹرانزینٹ ایسکیمک اٹیک کی تشخیص نہ کر پائے۔

’ایک ڈاکٹر نے کہا کہ یہ ان دواؤں کا اثر ہے جو میں نے استعمال کی تھیں، جبکہ چند کا کہنا تھا کہ یہ گردن میں بل کی وجہ سے اکڑاہٹ ہے، کچھ نے کہا کہ کیونکہ میں بہت دبلی پتلی ہوں اس لیے مجھے کمزوری ہو گئی ہے اور اسی طرح کی بہت سی اور باتیں بتائی گئیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’اس کے بعد میرے دائیں ہاتھ کی حرکت بے قابو ہو گئی، وہ خود بخود حرکت کرنے لگتا، میرے چہرے میں اچانک چھبن اور سنسناہٹ شروع ہو جاتی، مجھے بولنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا، اکثر میری زبان بند ہو جاتی، مگر اس دوران مجھے یا کسی کو فالج کے حملے کا شک تک نہ ہوا۔‘  

حتیٰ کے ڈاکٹروں نے میرا سی ٹی سکین بھی کیا لیکن اس میں بھی فالج کا حملہ ظاہر نہ ہوا۔

اس ٹرانزینٹ ایسکیمک اٹیک کا اس وقت پتہ چلا جب انھوں نے اپنی ایک گائناکولوجسٹ دوست سے اپنی جسمانی صحت سے متعلق مدد طلب کی۔

وقت اسی طرح گزرتا رہا اور آٹھ اگست 2019 کو جب وہ چھٹیوں پر جانے کے لیے بالکل تیار تھیں تو انھیں محسوس ہوا کہ ان کی ایک ٹانگ میں کمزوری ہو گئی ہے۔  وہ ایک مرتبہ دوبارہ ہسپتال گئیں اور ان کی طبی جانچ اور مختلف ٹیسٹس کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ ان کے دماغ کے ایک حصے میں ٹرانزینٹ ایسکیمک اٹیک ہوا ہے اور بظاہر انھیں جسمانی طور پر اس کے اثرات کا سامنا ہے۔

اگلے ہی دن انھیں ایک اور فالج کا حملہ ہوا اور وہ کوما میں چلی گئی۔ دس اگست کو  لیزیا کوما سے باہر آئیں مگر ان کے ہاتھ پاؤں کام نہیں کر رہے تھے۔

وہ اس وقت کو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ’یہ بہت خوفناک تھا، میں جانتی تھی کہ میں ہسپتال میں ہوں لیکن میں جب کوما سے باہر آئی تو میں ایک مختلف کمرے میں تھی، میں انتہائی نگہداشت کے کمرے میں تھی، اور اس وقت میرے پاس کوئی بھی نہیں تھا۔ میں رو بھی نہیں پا رہی تھی، میں صرف اپنے ارد گرد نرسوں کی آوازیں سن سکتی تھی۔‘  

وہ کہتی ہیں کہ ’ اس وقت ایسا احساس تھا جیسے آپ کو دفنا دیا گیا ہوں، جیسے آپ کے پورے جسم پر بھاری پتھر رکھ دیے گئے ہوں جو آپ کو حرکت کرنے سے روکتے ہیں۔‘

ایک حیران کن ابتدا

لیزیا

،تصویر کا ذریعہPersonal File

جیسے جیسے ہسپتال کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں دن گزرے لیزیا اپنی گردن کو سہارا دے کر مدد سے بیٹھنے کے قابل ہو گئی تھیں لیکن وہ اپنے ہاتھ اور پاؤں ہلانے کے قابل نہیں تھیں۔ فزیکل تھراپسٹ انھیں اٹھاتا اور نرسیں انھیں لیٹاتی تھیں۔

وہ ہسپتال میں اپنے گزرے وقت کو بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’آئی سی یو میں یہ صرف ایک ہفتہ نہیں تھا بلکہ یہ ایک عمر تھی، ایسا لگا کہ میں نے 30 برس وہاں گزار دیے۔‘

ایک ماہ بعد لیزیا سٹریچر پر گھر واپس گئیں، اس وقت بھی وہ وہیل چیئر پر بیٹھ نہیں سکتی تھیں۔ اور ان کا وہی علاج جاری رہا جو ہسپتال کے آئی سی یو وارڈ میں ہو رہا تھا۔

 لیزیا کی صحت یابی اور جسمانی بحالی کے ذمہ دار انتہائی نگہداشت دینے والی فزیو تھراپسٹ سٹیفنی نیویا گیاسو کہتی ہیں کہ ’جب وہ گھر واپس گئیں تو انھوں نے آنکھوں کے اشاروں سے بات کرنا شروع کی۔ انھیں خوراک کی نالی کے ذریعے کھلایا گیا جبکہ انھیں ڈائپر بھی لگایا گیا تھا۔ ان کے اہلخانہ اشاروں سے ان کے احساسات جاننے اور سمجھنے کی کوشش کرتے کہ وہ تکلیف میں ہیں، خوش ہیں یا افسردہ ہیں۔‘  

لیزیا کی صحت یابی اور ذہنی صحت کا خیال کرنے والے ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ ’ہم ان کی دن میں تین مرتبہ تھراپی کرتے تھے، وہ بہت تکلیف میں تھیں لیکن وہ اس کا اظہار نہیں کر سکتی تھیں، صرف ان کی آنکھوں سے آنسو بہتے تھے۔‘

تاہم کچھ ہی وقت میں سب کچھ بدل گیا تھا۔

ان کی فزیو تھراپسٹ کہتی ہیں کہ ’مجھے یہ بتانے میں خوشی ہے کہ دو ماہ کے عرصے میں بہت بہتری آئی تھی، کیونکہ انھوں نے بولنا شروع کر دیا تھا۔ وہ خود کھا سکتی تھیں، وہ مشکل سے چل سکتی تھی ہم نے انھیں اس کی تربیت دی تھی۔ اس کے بعد بس صحت میں بہتری آتی گئی۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’یہ ایک معجزہ تھا، وہ اب تک میری پیشہ وارانہ زندگی میں تیز ترین بحالی کا کیس تھیں۔‘

انھیں مکمل صحت یاب ہونے میں تقریباً ایک برس کا عرصہ لگا۔ جس کے دوران وہ مکمل طور پر خود کو سنبھالنے کے قابل ہو گئی تھیں۔

لیزیا اس بارے میں بتاتی ہیں کہ ’اس دوران میں نے کھانا کھانا، دانت برش کرنا، سونا، نیند سے جاگنا، کپڑے پہننا، لکھنا سب دوبارہ سیکھا۔‘

لیزیا

،تصویر کا ذریعہPersonal File

خود سے کیے وعدے پورے کرنا

لیزیا کو اچھی طرح یاد ہے کہ اس وقت کے دوران جب وہ صرف آنکھ جھپک سکتی تھی وہ مکمل ہوش میں تھیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اس وقت میں نے سوچا کہ میرے اکاؤنٹ میں پیسہ بھی ہے لیکن یہ بے کار ہے۔ مجھے احساس ہوا کہ میرے لیے سب سے اہم میرا خاندان اور دوست ہیں۔‘

ڈاکٹروں کے مطابق وہ دو مرتبہ فالج کے حملے کا شکار ہوئی تھیں۔ ان کے ہاتھ پاؤں مفلوج ہو جانے کا امکان بہت زیادہ تھا۔ اس لیے ان کی بہترین دوست شیلا انھیں ہسپتال میں خدا حافظ کہنے کے ارادے سے گئی تھیں کیونکہ ان کا خیال تھا کہ وہ اس حالت میں زندہ نہیں رہ سکیں گی۔

لیزیا بتاتی ہیں کہ ’جب میری دوست ملنے آئی تو اس نے پوسٹر پر حروف لکھے تاکہ میں اس سے آنکھ کے اشاروں سے بات کر سکوں۔ اور اس کے بعد وہ روزانہ ہسپتال آتی اور پوسٹر کے ذریعے ہم باتیں کرتے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ شیلا مجھے ایسے کتابیں بھی پڑھ کر سناتی جن میں فالج کے حملے میں صحت یابی کی امکانات کا ذکر ہوتا۔

اس وقت میں نے خود سے پہلا وعدہ کیا تھا کہ اگر میں اس صورتحال سے نکل گئی اور مکمل صحت یاب ہو گئی تو میں اپنی کہانی کے بارے میں ایک کتاب لکھوں گی۔

وہ پرجوش انداز میں کہتی ہیں ’اور وہ وعدہ پورا ہو گیا۔ گذشتہ برس میری کتاب شائع ہوئی ہے۔ اور اس کتاب کا عنوان وہ ہی ہے جو میں نے خود سے پوچھا تھا جب مجھے پتا چلا کہ مجھے کیا ہوا ہے۔‘

لیکن وعدوں کا سلسلہ وہیں نہیں رکا: شیلا نے ہسپتال کے دوروں کے دوران لیزیا کو یقین دلانے کے لیے کہ وہ ٹھیک ہو جائیں گی، کہا تھا کہ جب لیزیا صحت یاب ہو جائے گی، تو وہ میراتھن دوڑ میں حصہ لیں گے۔

’لیزیا کی صحت یابی ایک معجزہ ہے‘

لیزیا

،تصویر کا ذریعہPersonal File

البرٹ آئن سٹائن اسرالیٹ ہسپتال کے نیورو سرجن اور فیکلٹی آف میڈیکل سائنسز کے شعبہ نیورو سرجری کے محقق مارسیلو والاڈارس کہتے ہیں کہ اس قسم کے مریض کی صحت کی بحالی نہ عام ہے اور نہ ہی معمولی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’حالات انھیں اس مقام پر لے آئے تھے جہاں وہ صرف آنکھوں کے اشارے سے بات کر سکتی تھیں، لیکن آپ یہ توقع نہیں کر سکتے کہ ایک شخص اس قدر تباہی کے بعد ہفتوں پڑا رہے اور پھر مکمل صحت یاب ہو جائے۔

’لیکن دنیا میں کچھ بھی ناممکن نہیں ہے، ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارا جسم حیرت انگیز توانائی سے بھرا پڑا ہے۔‘

وہ فزیو تھراپسٹ جو تکنیکی اعتبار سے لیزیا کی حالت کا معائنہ کر رہے تھے کہتے ہیں کہ ان کی مکمل صحت یابی واقعی ایک حیران کن معجزہ ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’لیزیا کے دماغ میں جس طرح اور جس قدر نقصان پہنچا تھا میرے حساب سے میں انھیں زیادہ سے زیادہ بیٹھنے کے قابل اور ہاتھ کے اشارے سے بات کرنے کے قابل کر سکتا تھا کیونکہ ان کے دماغ کے مختلف حصوں کو فالج کے حملے سے نقصان پہنچا تھا جس میں دماغ کا وہ حصہ بھی شامل تھا جو ہمارے جسم کی حرکات و سکنات کو کنٹرول کرتا ہے۔‘

لیکن اب وہ لیزیا کو مکمل صحت یاب اور ان کے آئی سی یو میں کیے گئے وعدوں کو پورا کرتا دیکھ کر بہت خوش ہیں اور لیزیا بھی خود تسلیم کرتی ہیں کہ انھیں خود بھی یقین نہیں آتا کہ یہ ممکن ہو سکتا ہے۔

’آج جب میں ہاف میراتھن دوڑ کی ویڈیو دیکھتی ہو تو مجھے رونا آ جاتا ہے اور میں اسے دیگر مریضوں میں امید جگانے کے لیے دکھاتی ہوں۔‘

’ترجیحات تبدیل ہو گئی ہیں‘

لیزیا مکمل صحت یاب ہو گئی ہیں اور آج وہ 33 برس کی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آج ان کی زندگی کی ترجیحات تبدیل ہو چکی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میرا کام اہم ہے کیونکہ وہ میرا ذریعہ معاش ہے لیکن اب وہ پہلے کی طرح میری ترجیح نہیں۔ میری زندگی بالکل بدل گئی ہے۔ آج میری ترجیح ورزش کرنا اور کچھ آرام کرنا ہے۔ میں ان لوگوں کو مزید عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہوں جو میری بیماری اور اس کے بعد بھی میرے ساتھ ہیں۔ اور میں ان کے ساتھ وقت گزارنے کے لیے وقت نکالتی ہوں۔‘

نوجوان لیزیا نے اپنی دونوں لا فرموں سے نوکری چھوڑ دی اور اب وہ اکیلے بہتر اور صحت مند روٹین کے ساتھ کام کرتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اب میں ایک وکیل کے ساتھ ساتھ ایک مصنفہ، ایک امیچور اتھلیٹ بھی ہوں۔‘

وہ گذشتہ دو برسوں سے ہر سال اگست میں اپنی صحت کا جشن مناتی ہیں اور کہتی ہیں کہ جب تک زندہ ہوں میں زندگی کا یہ تلخ تجربہ نہیں بھول سکتی۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں دوبارہ پیدا ہوئی تھی۔‘

سائنس

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اے سی وی فالج کا مرض کیا ہے؟

فالج کے اس حملے کو بنیادی طور پر دو بڑے گروپ میں بیان کیا جاتا ہے۔ ایک اسکیمک اٹیک ہے جہاں دماغ تک خون پہنچانے والی شریانوں میں کہیں کوئی رکاوٹ آ جاتی ہے اور خون کی شریان کو نقصان پہنچتا ہے۔

جب کسی شخص کو فالج کا دورہ پڑتا ہے تو دماغ کا وہ حصہ جہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا خون سے آنے والی آکسیجن اور غذائی اجزا حاصل نہیں کر پاتا۔ نتیجے کے طور پر، خلیات مر جاتے ہیں. لہذا، مریض کو عارضی یا ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

برازیلین اکیڈمی آف نیورولوجی کے مطابق، اسکیمک سٹروک سب سے زیادہ اور بار بار ہوتا ہے اور کیسز میں  تقریباً 85 فیصد ہوتا ہے جبکہ ہیمرجک سٹروک زیادہ مہلک ہوتا ہے اور کل مریضوں میں سے تقریباً 15فیصد ہوتا ہے۔

خطرے کی علامات کیا ہیں؟

اس کی بڑی علامات میں سے چند یہ ہیں:

  •  ہائی بلڈ پریشر
  • ذیابیطس
  • کولیسٹرول بڑھنا
  • تمباکو نوشی
  • موٹاپا
  • سست طرز زندگی
  • کارڈیک اریتھمیا
  • الکوحل، منشیات یا چند ادویات کا زیادہ استعمال

نیورو سرجن والاڈیرس کہتے ہیں کہ ’فالج کا بہترین علاج پرہیز ہے۔‘ اور پرہیز کی بہترین شکل طرز زندگی سے متعلق ہے یعنی اچھی غذا، باقاعدگی سے جسمانی ورزش اور جتنا ممکن ہو سکے تناؤ سے بچنا۔

اس بیماری سے سب سے زیادہ متاثر عام طور پر 50 سال سے زیادہ عمر کے افراد ہوتے ہیں۔

عام طور پر، ان لوگوں میں سب کو بلند فشار خون یا ذیابیطس کے مسائل نہیں ہوتے بعض اوقات کسی شخص کی گردن پر جھٹکا لگنے، کسی سنگین حادثے کا شکار ہونے یا خون کی بیماریاں ہونے کے بعد فالج ہونے کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔

فالج کی شناخت کیسے کریں؟

 

فالج کی علامات اچانک یا آرام سے ظاہر ہو سکتی ہیں۔ اس کا انحصار دماغ کے متاثرہ حصے پر ہوتا ہے۔

برازیل کی وزارت صحت عموماً مندرجہ ذیل ابتدائی علامات کے حوالے سے خبردار کرتی ہے:

1. چہرے، بازو/ٹانگ میں کمزوری یا جھنجھلاہٹ، خصوصاً جسم کے کسی ایک حصے میں

2. ذہنی پریشانی

3. بولنے یا بینائی کی صلاحیت میں کمی یا مشکل، توازن کا کم ہونا، زبان اور نظر میں ہم آہنگی کی کمی، چکر آنا وغیرہ

4. بغیر کسی ظاہری وجہ کے اچانک شدید سر درد

5. آخر میں، یہ کہنا ضروری ہے کہ فالج ایک سنگین مسئلہ ہے، لیکن موت کا پیغام نہیں

نیورو سرجن کا کہنا ہے کہ ’فالج سے بچاؤ ممکن ہے، اس کا مریض وقت گزرنے کے ساتھ مکمل طور پر صحت یاب ہو جاتا ہے، مگر اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ فالج کا حملہ دماغ کے کس حصے پر ہوا ہے۔‘