"JDC" (space) message & send to 7575

ایران میں صنف نازک کا احتجاج

ایران میں خواتین کو قدیم زمانے سے کئی حقوق حاصل ہیں جو دوسری قدیم تہذیبوں میں کم کم نظر آتے ہیں۔ قبل مسیح کا یونانی تاریخ دان‘ جسے فادر آف ہسٹری بھی کہا جاتا ہے یعنی Herodotus اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ ایرانی خواتین کو مصری خواتین سے زیادہ حقوق حاصل تھے۔ مثلاً ایران میں عورت زمین کی مالک بن سکتی تھی۔ آزادانہ تجارت کر سکتی تھی۔ اُسے خاوند کے بغیر سفر کرنے کی آزادی حاصل تھی۔
ایرانی بادشاہ کی بیگم کو شاہ بانو کہا جاتا تھا‘ اگر بادشاہ کی وفات کے وقت ولی عہد نابالغ ہوتا تو شاہ بانو کو اس کی بلوغت تک حکمرانی کا حق حاصل تھا۔ مغلیہ دور میں ملکہ نور جہاں اور ممتاز محل دونوں ایرانی نژاد تھیں اور امورِ مملکت میں ان کا کردار واضح تھا۔ پاکستان میں بیگم ناہید اسکندر مرزا اور بیگم نصرت بھٹو‘ دونوں کے والدین ایرانی تھے۔ایرانی معاشرے میں ایک دلچسپ اصطلاح استعمال ہوتی ہے جس کا ذکر یہاں ضروری ہے اور وہ ہے ''زن سالاری‘‘۔ اس کا مطلب ہے خواتین کی قیادت۔ ایران میں یہ روایت موجود رہی ہے کہ بادشاہ کے حرم میں موجود خواتین اہم امورِ سلطنت کو نہ صرف زیرِ بحث لاتی تھیں بلکہ بادشاہ کو گورننس کے بارے میں مشورے بھی دیتی تھیں۔ آج کے ایران میں شرح تعلیم 87فیصد ہے اور بیشتر آبادی شہروں میں رہتی ہے۔
1979ء کا انقلابِ ایران زن سالاری کو ختم تو نہ کر سکا البتہ اسے خاصی حد تک محدود کرنے میں کامیاب رہا۔ خواتین کے لیے حجاب اور عبایہ لباس کا لازمی حصّہ بن گئے۔ تیس سال تک کوئی خاتون ایرانی کابینہ میں شامل نہ ہو سکی۔ 2009ء میں صدر محمود احمد ی نژادکے عہد میں ایک خاتون کابینہ کی ممبر بنیں مگر موجودہ کابینہ میں صنفِ نازک کی کوئی نمائندگی نہیں ہے۔ پچھلے ایک ماہ سے ایران میں مسلسل مظاہرے ہو رہے ہیں۔ بات ایسے شروع ہوئی کہ ایک نوجوان خاتون مہسا امینی کو حجاب کی خلاف ورزی پر اخلاقیات کے نفاذ کی پولیس ''گشت ارشاد‘‘نے گرفتار کر لیا۔ عام لوگوں کا خیال ہے کہ اس خاتون پر تشدد کیا گیا اور اتنا تشدد کہ اسے ہسپتال داخل کرانا پڑا۔ خاتون نے ہسپتال میں ہی اپنی آخری سانسیں لیں۔ بعینہٖ ایک اور افسوس ناک واقعہ ایک ہفتہ بعد رونما ہوا جس میں ایک اٹھارہ سالہ نیکا شاہ کرامی بھی پولیس تشدد کی وجہ سے وفات پا گئی۔
ان دو واقعات کے بعد ایرانی خواتین سڑکوں پر آ گئیں۔ طالب علم لڑکے لڑکیاں بھی اُن کے ساتھ شامل ہو گئے۔ مظاہروں میں شدت پسندی کا عنصر بھی آ گیا۔ ایک اندازے کے مطابق اب تک سو سے زائد شہری اور پندرہ سکیورٹی اہل کار جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ دراصل یہ مظاہرے پچھلے پانچ سال سے ہونے والے مظاہروں کا تسلسل ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 2017ء میں ایران میں خراب اقتصادی صورت حال کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج ہوا تھا۔ ایران کی سکیورٹی فورسز نے سختی سے اس احتجاج کو کچل دیا تھا۔ عالمی اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے ایران کے معاشی حالات اب بھی خراب ہیں۔ ایرانی کرنسی کا برا حال ہے۔2019ء میں پٹرول کی قیمت بڑھنے پر مظاہرے ہوئے‘ اس بار احتجاج 2017ء کے مقابلے میں زیادہ نمایاں تھا۔ مغربی ذرائع کاکہنا تھا کہ اس احتجاج کے دوران 1500کے قریب لوگ مارے گئے تھے۔ پاسداران کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت پر امریکہ کے خلاف غیظ و غضب تو تھا ہی لیکن جلد ہی یہ عوامی غصہ اپنی حکومت کی جانب مڑ گیا۔ یوکرین کے لیے پرواز کرنے والی ایک کمرشل پرواز کو ایرانی ایئر ڈیفنس نے غلطی سے مار گرایا۔ جہاز میں ساٹھ ایرانی شہری بھی سوار تھے۔ اُن کے عزیز سڑکوں پر آ گئے۔ اس طرح یہ مظاہرے 2020ء تک چلتے رہے۔
ایرانی انقلاب کو اب چار دہائیوں سے زائد عرصہ ہو چکا ہے۔ لگ رہا ہے کہ ایرانی عوام اب تبدیلی کی طرف مائل ہیں اور اس مرتبہ تبدیلی کا پرچم ایرانی خواتین نے اٹھایا ہے وہ باآوازِ بلند کہہ رہی ہیں کہ ہم حجاب کریں یا نہ کریں یہ فیصلہ ہم خود کریں گی‘ حکومت کا یہ کام نہیں ہے۔ایران میں کچھ اور مسائل بھی سامنے آ رہے ہیں۔ روحانی لیڈر عمر کے لحاظ سے اب خاصے بزرگ ہیں اور ان کے جانشین کے بارے میں چہ میگوئیاں شروع ہو چکی ہیں۔ ایٹمی پروگرام پر دوبارہ معاہدہ ہونے کی راہ میں بھی ابھی رکاوٹیں ہیں۔ مغربی ممالک نے اقتصادی پابندیاں جاری ہی نہیں رکھیں بلکہ مزید سخت کر دی ہیں۔ اس ساری صورت حال کا اثر عوام کی زندگی پر پڑ رہا ہے۔
گھر کا بجٹ خاتونِ خانہ بناتی ہے۔ ایرانی عورت معاشی مشکلات کا براہِ راست مقابلہ کر رہی ہے۔ اب اس کی سوئی ہوئی زن سالاری بھی جوش مار رہی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ شاہ کے زمانے میں ایرانی معاشرہ خاصا ماڈرن بلکہ مغرب زدہ تھا۔ مغرب کی اس نقالی کے خلاف سخت ردعمل اسلامی انقلاب کی صورت میں سامنے آیا۔ اسلامی حکومت عورت کو گھر کی چار دیواری میں تو بند نہ کر سکی لیکن اُس پر چادر اور حجاب کی پابندی ضرور لگا دی۔ ایرانی صنف نازک کی نئی نسل ان پابندیوں سے آزاد ہونا چاہتی ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کو تسلیم کرنے والا پاکستان اولین ملک تھا۔ لیکن پھر بھی پاک ایران تعلقات میں جو گرم جوشی آنا چاہیے تھی وہ نہ آ سکی۔ ایران کو اعتراض رہا کہ پاکستان امریکہ اور خلیجی ممالک کے بہت قریب ہے جبکہ پاکستان کو یہ شکوہ رہا کہ ایران بھارت کا قریبی دوست بن گیا ہے۔ ایران پر اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے تجارتی تعلقات بھی محدود رہے۔ ایران پاکستان گیس پائپ لائن بھی نہ بن سکی۔
پاک ایران بارڈر کئی سال سے ایک مسئلہ رہا ہے۔ اس بے آب و گیاہ اور دشوار گزار علاقے میں مختلف اقسام کی سمگلنگ ہوتی ہے۔ ایران دشمن اور پاکستان مخالف قوتیں اس بارڈر کو اپنے مذموم عزائم کے لیے استعمال کرتی رہی ہیں یہاں جنداللہ جیسی دہشت گرد تنظیم ایران کے خلاف مصروف عمل رہی‘ یہیں سے کلبھوشن یادیو پاکستان داخل ہوا۔ دونوں جانب سے بارڈر فینسنگ کا کام ہوا ہے جس سے صورت حال بہتر ہوئی ہے۔
ایران کا الزام ہے کہ خواتین کی سربراہی میں موجودہ مظاہروں میں مغربی ممالک ملوث ہیں۔ اب کئی ممالک اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ اگر ایران میں واقعی تبدیلی آتی ہے تو خطے اور عالمی حالات پر کیا اثر پڑے گا۔ میرے خیال میں اگر تہران میں مغرب دوست حکومت آتی ہے تو خلیج میں تناؤ کم ہوگا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ شاہِ ایران کے دور میں خلیج کے خطے میں مکمل امن و آشتی کی فضا تھی۔
لیکن اگر کسی کا خیال ہے کہ حکومت بدلنے سے ایران اپنا ایٹمی پروگرام ترک کر دے گا تو یہ خام خیالی ہوگی۔ ایرانی تفاخر کی حد تک محب وطن ہیں۔ انہیں اپنی تہذیب اور تاریخ پر فخر ہے اور ایٹمی پروگرام کے حوالے سے پوری ایرانی قوم یکسو ہے۔ رستم اور سہراب کا وطن قومی سلامتی پر کوئی سمجھوتا نہیں کرے گا۔ ایٹمی پروگرام انٹرنیشنل تقاضوں کے مدنظر سست ہو سکتا ہے مگر ختم نہیں ہوگا۔
زن‘ زندگی اور آزادی کا نعرہ آج پورے ایران میں گونج رہا ہے۔ ایرانی خواتین زندگی اور آزادی کا حق مانگ رہی ہیں۔ کیا مادام گوگوش اور فروغ فرخزاد کے وطن میں انہیں حقوق سے محروم کیا جا سکتا ہے؟ وہ تو صدیوں سے صنفی برابری کی عادی ہیں۔ زن سالاری ان کے نزدیک قطعاً معیوب نہیں۔ خواتین کے مظاہروں نے حکومت کو پریشان ضرور کیا ہے لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ خواتین کی منظم مزاحمت سے موجودہ نظام گر جائے گا۔ موجودہ حکومت انقلاب کا ہر قیمت پر دفاع کرے گی۔ مگر ایرانی عورت نے نظام کو جھٹکا ضرور لگایا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں