کنہیا لال قتل کیس: عینی شاہد نے کیا دیکھا اور پولیس ملزمان کو گرفتار کرنے میں کیسے کامیاب ہوئی؟

UDAIPUR

،تصویر کا ذریعہPTI

،تصویر کا کیپشنسی سی ٹی وی فوٹیج میں کنہیا لال ایک ملزم کے کپڑوں کا ناپ لیتے نظر آ رہے ہیں

منگل (28 جون) کے روز لگ بھگ دوپہر ساڑھے تین بجے کا وقت تھا جب چہرے مہرے سے مسلمان نظر آنے والے دو افراد (جن کی پولیس نے بعد ازاں شناخت محمد ریاض عطاری اور غوث محمد کے ناموں سے کی ہے) راجھستان کے ضلع اودے پور میں ایک درزی کی دکان میں داخل ہوئے۔

دکان میں داخل ہونے والے ایک شخص نے درزی کنہیا لال سے استفسار کیا کہ ’پاجامے کی سلائی کرو گے؟‘

کنہیا لال نے جواب دیا ’کیوں نہیں، بالکل سلائی کریں گے۔‘

یہ کہنے کے بعد کنہیا لال پاجامے کا ناپ لینے لگے۔

اسی دوران کنہیا لال کی آنے والے گاہکوں سے ہاتھا پائی شروع ہوئی اور تھوڑی ہی دیر میں ملزمان نے چھروں کی مدد سے کنہیا لال کی گردن گاٹ دی۔ ملزمان نے ناصرف قتل کے منظر کو فلمایا بلکہ اسے آن لائن پوسٹ بھی کیا۔

اس کے بعد دونوں ملزمان نے ایک اور ویڈیو شیئر کی جس میں انھوں نے دعویٰ کیا کہ انھوں نے بی جے پی کی ایک سیاست دان (نوپور شرما) کی جانب سے پیغمبر اسلام کے بارے میں متنازع بیان کی کنہیا لال کی جانب سے کی جانے والی حمایت کا بدلہ لیا ہے۔ اس ویڈیو میں ملزمان چھرے لہرا رہے ہیں (جن پر بظاہر خون کے داغ ہیں) اور وہ ’لبیک یارسول اللہ‘ کے نعرے بھی لگا رہے ہیں۔

مگر پولیس ان ملزمان کو واردات کے چار گھنٹے کے اندر گرفتار کرنے میں کیسے کامیاب ہوئی؟ اس سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ ملزمان کون ہیں اور قتل سے قبل کنہیا لال نے اپنی جان کو درپیش کن خطرات کا ذکر کیا تھا اور اس موقع پر موجود عینی شاہدین نے پولیس کو کیا بتایا۔

’ہم کپڑے سی رہے تھے کہ چیخنے کی آواز آئی‘

راجستھان

،تصویر کا ذریعہANI

،تصویر کا کیپشنکنہیا لال کے قتل کے بعد علاقے میں زبردست احتجاج ہوا تھا

اس قتل کی کہانی درزی کنہیا لال کے کاریگر گریش شرما نے پولیس کو سُنائی ہے جسے ہندی اخبار روزنامہ ’بھاسکر‘ نے صفحہ اول کی شہ سرخی بنایا ہے۔

گریش شرما نے بتایا کہ ’میں پچھلے 10 برسوں سے اودے پور کے ملداس سٹریٹ میں سیٹھ جی (کنہیا لال) کے ساتھی ہی ٹیلرنگ کرتا تھا۔ منگل کی سہ پہر دو نوجوان (جن کی پولیس نے شناخت محمد ریاض عطاری اور غوث محمد کے ناموں سے کی ہے) دکان پر آئے اور کہا کہ پاجامہ سلائی کرو گے؟ سیٹھ جی نے کہا وہ بالکل سلائی کریں گے۔‘

گریش شرما کے مطابق کنہیا لال ریاض کے پاجامے کا سائز لینے لگے۔ ’میں اور میرا ساتھی شہزادہ کپڑے سلائی کر رہے تھے۔ پھر چیخنے کی آواز آئی۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ سیٹھ جی پر حملہ آور تھا۔ میں باہر بھاگا۔ جب میں ساتھ والی دکان پر پہنچا، سیٹھ جی دکان پر پڑے تھے خون بہہ رہا تھا۔ کسی طرح شہزادہ بھی میرے ساتھ بھاگا۔‘

ملزمان ریاض عطاری اور غوث محمد کون ہیں؟

INDIA

،تصویر کا ذریعہMOHAR SINGH MEENA/BBC

روزنامہ بھاسکر کے مطابق ملزم محمد ریاض عطاری اصل میں بھیلواڑہ کے رہنے والے ہیں اور وہ اودے پور میں کرائے کے مکان میں رہتے ہیں۔ انڈین میڈیا کے مطابق وہ مساجد میں بطور خدمت گار کام کرتے تھے۔

جبکہ غوث محمد کا تعلق راجسمند کے علاقے بھیما سے ہے۔ وہ بھی اودے پور میں کرائے پر رہتے ہیں۔ وہ ویلڈنگ اور زمین کے لین دین کا کام کرتے ہیں۔

کنہیا لال کو اپنی جان کو خوف کیوں تھا؟

کنہیا لال کی دکان پر کام کرنے والے کاریگر گریش شرما نے بتایا کہ ’سیٹھ جی نے 10-15 دن پہلے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ ڈالی تھی جس اس پر تنازع کھڑا ہو گیا تھا۔ اس کے بعد پولیس انھیں پکڑ کر لے گئی اور چند روز بعد معاملہ رفع دفع ہو گیا۔‘

واضح رہے کہ یہ پوسٹ نوپور شرما کے بیان کی حمایت میں تھی۔

اودے پور کے ڈائریکٹر جنرل پولیس ایم ایل لیتھر نے اس واقعے کے بعد میڈیا کو بتایا کہ 10 جون کو کنہیا لال کے خلاف ایک مقامی شخص نے پولیس میں شکایت درج کروائی تھی جس کی بنیاد پر انھیں 11 جون کو پولیس نے حراست میں لے لیا تھا۔

ڈائریکٹر جنرل پولیس کے مطابق 12 جون کو انھیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا تھا۔ انھوں نے مزید بتایا کہ 15 جون کو کنہیا لال نے پولیس سے رابطہ کیا اور انھیں اپنی جان کو درپیش خدشات کے حوالے سے آگاہ کیا۔

اودے پور کے ڈائریکٹر جنرل پولیس ایم ایل لیتھر کے مطابق ایس ایچ او نے کنہیا لال کی شکایت کو سنجیدہ نہیں لیا اور یہ معاملہ ایک اے ایس آئی کے حوالے کر دیا جنھوں نے قانونی کارروائی کے بجائے فریقین کو بٹھا کر معاملہ حل کروانے کی کوشش کی۔

ڈائریکٹر جنرل پولیس کے مطابق فرائض سے غفلت برتنے پر ایس ایچ او اور اے ایس آئی کو معطل کر دیا گیا ہے۔

پولیس نے ملزمان کو کیسے گرفتار کیا؟

ڈائریکٹر جنرل پولیس ایم ایل لیتھر کے مطابق پولیس نے اس واقعے کے چار گھنٹے کے اندر ہی فوری کارروائی کرتے ہوئے ملزمان کو گرفتار کر لیا تھا۔

گرفتاریوں کے متعلق اے ڈی جی لا اینڈ آرڈر ہواسنگھ گھمریا نے کہا کہ قتل کے بعد ہی معلوم ہوا کہ ملزمان بائیک پر تھے جس کے بعد بھیما نامی علاقے کا محاصرہ کر لیا گیا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ’قتل کرنے کے بعد وہ لوگ موٹر سائیکل پر راجسمند والی روڈ پر چلے گئے، لیکن ان کی موٹر سائیکل سے متعلق پولیس کی پاس تھی جس کے بعد راجسمند کی پولیس نے ناکہ بندی کی اور انھیں پکڑ لیا گیا۔‘

مظاہرین مذاکرات کے بعد رات دس بجے لاش اٹھانے پر راضی ہوئے

قتل کے بعد اہلخانہ نے کچھ مطالبات سامنے رکھے تھے جن پر اتفاق کے بعد کنہیا لال کی لاش مردہ خانے میں رکھ دی گئی۔ پوسٹ مارٹم کے بعد آخری رسومات ادا کی جائیں گی۔

حکام کی جانب سے لواحقین کو 31 لاکھ روپے اور ان کے دونوں بیٹوں کو نوکری کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔

منگل کو ہاتھی پول چوراہے پر پہنچنے والے لوگوں اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئی تھی۔ اس میں بی جے پی یووا مورچہ کا ایک کارکن زخمی ہوگیا۔

قتل اور اس سے متعلق بیان کی ویڈیو شیئر نہ کی جائے: حکام کی اپیل

علاقے میں مذہبی بنیادوں پر کشیدگی کی وجہ سے حکومت نے انٹرنیٹ سروس معطل کر دی تھی اور بڑے اجتماعات پر پابندی لگا دی ہے۔

راجستھان پولیس کے ایک اعلیٰ اہلکار نے ذرائع ابلاغ سے کہا تھا کہ وہ قتل کی ویڈیو نشر نہ کریں کیونکہ یہ 'دیکھنے میں بہت اندوہناک' ہے۔

انڈیا کی تمام تر مسلم تنظیموں کی جانب سے اس قتل کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی ہے جبکہ راجستھان کے وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت نے لوگوں سے امن و امان برقرار رکھنے کی اپیل کی اور اس کے علاوہ انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ایسے نازک موقعے پر وزیر اعظم کو عوام سے امن و امان برقرار رکھنے کی اپیل کرنی چاہیے۔

وزیرِ اعلیٰ راجستھان اشوک گہلوت نے کہا تھا کہ ’میں ہر ایک سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ پر امن رہیں اور واقعے کی ویڈیو شیئر نہ کریں۔‘

انھوں نے کہا کہ لوگ واقعے کی ویڈیو شیئر نہ کریں کیونکہ اس سے مجرموں کی جانب سے سوسائٹی میں نفرت پھیلانے کا مقصد پورا ہو جائے گا۔

اس واقعے کے بعد ہندو تنظمیوں میں غم و غصہ نظر آ رہا ہے اور ان کی جانب سے علاقے کی مارکیٹوں کو بند کروا دیا گیا ہے۔ یہ بھی اعلان کیا گیا ہے کہ یہ بندش غیر معینہ مدت تک کے لیے ہے۔

قتل کے واقعے کے بعد راجستھان کی حکومت نے پوری ریاست میں ہائی الرٹ جاری کر رکھا ہے۔ پولیس کے ڈائریکٹر جنرل سری لاتھر نے میڈیا سے اپیل کی ہے کہ وہ قتل کے واقعے کی ویڈیو نشر نہ کریں۔