سمیع اللہ خان: دوران چھاپہ فائرنگ سے ہلاک ہونے والے مردان کے پولیس اہلکار کی میت حوالگی میں تاخیر کیوں ہوئی؟

  • عزیز اللہ خان
  • بی بی سی اردو ڈاٹ کام، پشاور
میت

،تصویر کا ذریعہTwitter/@MYusufzai

’ایک دکھ تو والد کی موت کا تھا اور دوسرا دکھ یہ کہ انتظار کرنا پڑ رہا تھا۔ گاؤں میں اعلانات ہو گئے تھے اور لوگ گھر پہنچ رہے تھے، علاقے میں ویسے بھی شہید کے جنازے میں شرکت کے لیے دور دور سے بھی لوگ آتے ہیں۔‘

جرائم پیشہ افراد اور شدت پسندوں کے خلاف مختلف مقامات پر پولیس مقابلوں میں شریک پولیس اہلکار سمیع اللہ خان منگل کو ایک چھاپے کے دوران فائرنگ سے ہلاک ہو گئے لیکن ان کے ورثا کو میت حاصل کرنے میں کئی گھنٹے انتظار کرنا پڑا۔

ان کے بیٹے ابرار خان نے بی بی سی کو بتایا کہ گذشتہ روز انھیں اطلاع ملی تھی کہ والد صاحب ایک چھاپے میں فائرنگ کا نشانہ بن گئے ہیں۔

ابرار بتاتے ہیں کہ ’ہم مردان سے پشاور پہنچے تو معلوم ہوا کے والد صاحب کا پوسٹ مارٹم ہو چکا ہے اور ہمیں پولیس لائن پہنچنے کا کہا گیا، جہاں ہم نے ساڑھے تین گھنٹے انتظار کیا۔‘

انھیں حکام کی جانب سے اس انتظار کی وجہ یہ بتائی گئی کہ جب پولیس افسران آ جائیں گے تب پشاور کی پولیس لائن میں نماز جنازہ ادا کی جائے گی۔

ابرار نے خاندان سے مشاورت کے بعد گاؤں میں شام ساڑھے چار بجے کا وقت نماز جنازہ اور تدفین کے لیے مقرر کیا تھا تاہم پشاور کی پولیس لائن میں انھیں میت حوالے نہیں کی جا رہی تھی اور یہی کہا جاتا رہا کہ ’تھوڑی دیر انتظار کریں افسران آنے والے ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’پہلے نو بجے کا وقت دیا گیا، پھر دس بجے اور پھر ساڑھے بارہ بجے کا وقت بتایا گیا۔‘

ابرار

،تصویر کا ذریعہCourtesy Ibrar Khan

ان کا کہنا تھا کہ انھیں جو وقت پشاور میں بتایا گیا انھوں نے اسی حساب سے گاؤں میں تدفین کا وقت مقرر کیا تھا لیکن یہاں پشاور میں مسلسل تاخیر کی جا رہی تھی۔

’تاخیر کی ایک وجہ یہ بتائی گئی کہ کسی ایک پولیس افسر کی والدہ فوت ہو گئی ہیں اور یہاں سے افسران ان کی نماز جنازہ کے لیے گئے ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ پشاور پولیس لائن سے وہ پونے ایک بجے فارغ ہوئے اور مردان کے لیے روانہ ہوئے جہاں بڑی تعداد میں لوگ انتطار کر رہے تھے۔

یہ خبر اس وقت منظر عام پر آئی جب سینیئر صحافی مشتاق یوسفزئی نے یہ معاملہ ٹوئٹر پر پوسٹ کیا۔

صحافی مشتاق یوسفزئی نے بی بی سی کو بتایا کہ سمیع اللہ کا تعلق ان کے گاؤں سے ہے اور جب انھیں اطلاع ملی تو وہ فوری طور پر لیڈی ریڈنگ ہسپتال پہنچے جہاں معلوم ہوا کہ سمیع اللہ ہلاک ہو چکے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ’سمیع اللہ کے بچے مردان کے قریب گاؤں کاٹلنگ میں تھے اور انھیں یہاں پہنچنے میں وقت لگ گیا تھا۔‘

پولیس

،تصویر کا ذریعہCourtesy Ibrar Khan

’اس کے بعد وہ میت کو پوسٹ مارٹم کے لیے لے گئے، جو بیس منٹ میں ہو گیا۔ اس کے بعد وہ میت گاؤں لے جانا چاہتے تھے لیکن پولیس اہلکاروں نے کہا کہ پہلے میت پولیس لائن لے جائیں گے اس کے بعد میت ورثا کے حوالے کی جائے گی۔‘

مشتاق یوسفزئی کا کہنا تھا کہ وہ پولیس لائن صبح نو بجے پہنچ گئے تھے۔ سمیع اللہ کے بیٹے بھی پہنچ گئے اور میت پولیس لائن کی مسجد میں رکھ دی گئی۔ اس کے بعد انھیں کئی گھنٹے اس لیے انتظار کرنا پڑا کیونکہ پولیس افسران نہیں پہنچے تھے۔‘

یہ بھی پڑھیے

مشتاق یوسفزئی کے مطابق جب تک میت لے کر وہ اپنے علاقے پہنچے تو مقررہ وقت میں آدھا گھنٹہ باقی تھا، میت کا آخری دیدار مشکل سے لوگوں کو نصیب ہو سکا تھا۔

اس بارے میں پولیس حکام سے رابطہ کیا گیا تو پشاور شہر کے پولیس افسر عباس احسن نے بتایا کہ نماز جنازہ پوسٹ مارٹم کے بعد مکمل اعزاز کے ساتھ ادا کی گئی۔

انھوں نے بتایا کہ سمیع اللہ ایکس سروس مین تھے اور ان کی ریگولرائزیشن یا ان کی پولیس میں مستقل تعیناتی کا کیس محکمہ خزانہ میں پڑا ہے تاہم انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ جنازہ ادا کرنے میں تاخیر کی کیا وجہ تھی۔

پولیس

،تصویر کا ذریعہCourtesy Police Department

سمیع اللہ کون تھے؟

یہ ان دنوں کی بات ہے جب سنہ 2009 اور 2010 کے دوران پاکستان میں دہشتگردی عروج پر تھی۔ زیادہ تر پولیس اہلکار نوکریاں چھوڑ رہے تھے اور انھی دنوں سمیع اللہ جو فوج سے ریٹائر ہوئے تھے انھیں ایک خط موصول ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ اگر وہ پولیس میں بھرتی ہونا چاہتے ہیں تو وہ حاضر ہو جائیں۔

سمیع اللہ نے حامی بھر لی اور کانٹریکٹ پر پولیس میں بھرتی ہو گئے۔ ان دنوں پولیس کی نفری کم تھی اور پولیس کو تربیت یافتہ اہلکاروں کی ضرورت تھی، سمیع اللہ اس کے لیے انتہائی موزوں امید وار تھے۔

سمیع اللہ نے پولیس میں بھرتی ہونے کے بعد کافی مشکلات کا سامنا کیا، شدت پسندوں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف تو ہر محاذ پر موجود رہتے تھے لیکن دوسری جانب کئی کئی ماہ تک انھیں تنخواہ بھی نہیں ملتی تھی۔

مشتاق یوسفزئی نے بتایا کہ سمیع اللہ کو مشکل علاقوں میں تعینات کیا گیا تھا جیسے متنی اور بڈھ بیر کے علاقے جو شدت پسندی کے واقعات کے حوالے سے کافی بدنام تھے۔

خیبر پختونخوا میں ان دنوں بھی تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے جس میں زیادہ تر پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

خیال رہے کہ پیر کو ضلع کوہاٹ میں انسداد پولیو مہم کے لیے تعینات کارکنوں کے ساتھ موجود پولیس اہلکار کو بھی نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔