شیکھاوتی: راجستھان کے ارب پتی تاجروں کے سنسان محل اور حویلیاں جو شکست و ریخت کا شکار ہیں

  • نیلیما ویلانگی
  • بی بی سی ٹریول
حویلی

،تصویر کا ذریعہNeelima Vallangi

راجستھان کے بنجر صحرا میں ’شیکھاوتی‘ نامی علاقہ ایک وقت میں انڈیا کے کھرب پتی خاندانوں کے عالی شان محلوں کا مرکز تھا۔ لیکن دورِ حاضر میں انڈیا کے اشرافیہ کی بہت سی ایسی حویلیاں اب خستہ حالت میں سنسان و ویران پڑی ہیں۔

ان حویلیوں کی شکستہ دیواریں اور چھتیں اس علاقے کی بھولی بسری شان و شوکت کی عکاسی کرتی ہیں۔ ان عظیم و شان حویلیوں کی دیواروں پر کثیر تعداد میں تصاویر اور پینٹنگز ابھی تک لٹکی ہوئی ہیں۔ شیکھاوتی اس لحاظ سے بھی منفرد ہے یہاں حویلیوں اور محلات کی بھرمار ہے۔

پوری دنیا میں شاید شیکھاوتی جیسا کوئی علاقہ نہیں، جہاں اس طرز کی اتنی زیادہ تعمیرات موجود ہوں۔ حکام نے کسی بھی ایسے شخص کو انھیں خریدنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے جو کہ ان عظیم و شان عمارات کی میراث کو محفوظ نہیں رکھ پائے گا۔

اس کا مقصد شیکھاوتی کو ایک سیاحتی مقام کے طور پر منظر عام پر لانا ہے۔

حویلی

،تصویر کا ذریعہNeelima Vallangi)

راجپوتوں کے سردار راؤ شیکھا نے 15ویں صدی کے آخر میں اس علاقے کی بنیاد رکھی اور 19ویں صدی تک یہ جگہ بہت خوشحال تھی۔ تاجروں کے لیے پُرکشش بنانے کے لیے اس علاقے میں ٹیکس مراعات دی گئیں اور قریب ہی واقع جے پور اور بکانیر جیسے کاروباری مراکز سے گزرنے والے تجارتی قافلوں کا رُخ یہاں موڑا گیا۔

مارواڑی اور بنیا برادری کے سوداگر اور کاروباری افراد شیکھاوتی اور اس کے مضافات میں منتقل ہو گئے جہاں سے انھوں نے افیون، کپاس اور مصالحہ جات کے کاروبار کے ذریعے خوب دولت کمائی۔ پیسے کی ریل پیل ہوئی تو 19ویں صدی کے آغاز تک دیکھتے ہی دیکھتے تاجروں کے چھوٹے چھوٹے مکان محلوں میں تبدیل ہو گئے۔

حویلی

،تصویر کا ذریعہNeelima Vallangi

جب سنہ 1820 میں تجارت زمینی راستوں سے منتقل ہو کر بحری جہازوں اور ٹرینوں کے ذریعے ہونے لگی تو راجستھان کے کاروباری مراکز آہستہ آہستہ زوال کا شکار ہونا شروع ہو گئے۔ یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے علاقے کی کاروباری شخصیات نے ملک کے ساحلی علاقوں میں موجود بمبئی اور کلکتہ جیسے تیزی سے ترقی کرنے والے شہروں میں پڑاؤ ڈالا۔

جہاں سے وہ بے تحاشہ دولت کما کر شیکھاوتی بھیجتے، جس سے رنگ برنگی اور عالی شان حویلیوں کا دور شروع ہوا جو ان کی دولت کی نمائش کرتا۔

حویلی

،تصویر کا ذریعہ Neelima Vallangi

بہت سی حویلیوں کا طرز تعمیر ایک جیسا ہے۔ ایک چوکور زمین کے حصے پر دو منزلہ عمارت اور اس میں دو یا چار برآمدے موجود ہوتے ہیں اور ہر برآمدہ اور اس سے منسلک کمرہ ایک خاص مقصد کے لیے ہوتا تھا۔ حویلی میں اندر آتے ہی جو برآمدہ موجود ہوتا وہ عموماً مردوں اور ان کے کاروباری معاملات کے لیے مختص ہوتا۔

دوسرا برآمدہ خواتین کے لیے اور مزید دو برآمدے پکوان تیار کرنے اور جانوروں کے لیے استعمال ہوتے۔ لیکن تاجروں نے ان عمارات کو منفرد بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

ان کی تزین و آرائش تراشی ہوئی لکڑی، شاندار آئینوں سے کی جاتی۔ اور ان ساری چیزوں کو چار چاند لگانے کے لیے مہنگی پینٹینگز یا تصاویر کا استعمال کیا جاتا۔ یہ پینٹنگز روز مرہ کے معمول اور افسانوی کہانیوں کے بارے میں تھیں۔

حویلی

،تصویر کا ذریعہNeelima Vallangi

17ویں صدی میں راجپوت بادشاہوں نے امیر قلعے سے رنگ برنگی اونچے اور چوڑی دیواروں کا ایک سلسلہ شروع کیا۔ جس سے متاثر ہو کر شیکھاوتی کے تاجروں نے قیمتی پینٹنگز بنوانا شروع کیں، جو کہ محلوں کے ہر ایک انچ پر لٹکائی اور نصب کی گئیں۔ چاہے پھر وہ اندرنی حصہ ہو یا بیروںی، دیواریں ہوں، چھت ہوں یا پھر ستون۔

یہ بھی پڑھیے

مہا بھارت اور راماین جیسے قدیم ہندو واقعات پر مبنی یہ تصاویر، پھولوں اور خوبصورت ڈیزائنوں کے ہمراہ دیواروں پر لٹکائی جاتیں۔ ان پینٹگز کو بنانے کے لیے سب سے پہلے جےپور میں فنکاروں سے رابطہ کیا گیا۔

لیکن پھر دیواروں میں رنگ بھرنے کے تیزی سے پھیلتے رواج کو دیکھتے ہوئے شیکھاوتی میں کمہار برادری نے اس فن کو سیکھا اور دیکھتے ہی دیکھتے مختلف گاؤں میں منفرد طرز دیکھنے میں آئے۔

حویلی

،تصویر کا ذریعہNeelima Vallangi

ہمیں یہ نہیں معلوم کہ یہ ڈیزائن انھوں نے خود بنائے تھے یا پھر انھیں بنوانے والوں نے ان سے ایسا کرنے کو کہا۔

19ویں صدی سے پہلے تک روایتی طور پر رنگ معدنی ذرائع اور سبزیوں سے بنائے جاتے تھے۔ جس میں گہرے سرخ، میرون، جامنی اور نیلے رنگ شامل تھے۔ اس کے علاوہ پیلا رنگ بھی بہت مقبول تھا جو کہ گائے کے پشاب سے بنایا جاتا۔

سنہ 1860 کے اوائل میں مصنوعی رنگ استعمال ہونا شروع ہو گئے جو کہ نہ صرف سستے تھے بلکہ ان میں اور بھی نت نئے قسم کے رنگ آنے لگے۔

20ویں صدی شروع ہونے کے ساتھ ہی فریسکوز یا دیواروں میں رنگ بھرنے کے عمل میں یورپی طرز کے اور جدید ڈیزائن نظر آنے لگے۔ جو بیوپاری گھوم پھر کر آتے وہ اپنی یاداشتیں پینٹروں کو بتاتے جو کہ انھیں پینٹنگ کی صورت میں تخلیق کرتے۔

بعض اوقعات رنگ سازوں کو بھی بیرونِ ملک بھیجا گیا تاکہ وہ وہاں کے منظر دیکھ کر انھیں اپنی تخلیق میں شامل کریں لیکن ایسا بہت کم ہوتا تھا۔

شیکھاوتی میں ملکہ ایلزبتھ، مسیحی مذہب سے متعلق تصاویر، بھاپ سے چلنے والی ٹرینوں کے انجن اور عجیب و غریب ایجادات کو افسانوی کہانیوں کے ساتھ ملا کر اُن کے ڈیزائن بنائے گئِے۔

حویلی

،تصویر کا ذریعہNeelima Vallangi

شیکھاوتی میں یہ حویلیاں اور رنگ بھری دیواریں 20ویں صدی کی شروعات تک کافی مقبول رہیں۔ لیکن جب بیوپاری اور تاجر برادری نے تیزی سے ترقی کرتے شہر جیسا کہ ممبئی اور کولکتہ کا رخ کیا تو فن کے یہ اثاثے دھول چاٹنے لگے۔

آہستہ آہستہ تمام کاروباری سرگرمیاں شیکھاوتی میں ختم ہو گئیں اور یہ حویلیاں ہمیشہ کے لیے سنسان و ویران رہ گئیں۔ انڈیا کی تاجر برادری کے بہت بڑے نام جن کا آج دنیا بھر میں چرچا ہے، کا تعلق شیکھاوتی کے گاؤں دیہات سے تھا۔ ان میں لکشمی متل، کیمار برلا، اجے پیرامل اور بنود چوہدری جیسے نام شامل ہیں۔

بزنس جریدے فوربز کے مطابق انڈیا کے سو امیر ترین لوگوں میں سے 25 فیصد کا تعلق شیکھاوتی سے ہے۔

1950 کی دہائی میں جن قصبوں میں انڈیا کے ارب پتی پلے بڑھے، وہ آہستہ آہستہ خستہ حالی کا شکار ہو رہے تھے۔ اتنے بڑے بنگلوں کو فروخت کرنا یا ان کی مرمت کروانے میں نہ صرف بہت زیادہ رقم بلکہ وقت بھی خرچ ہوتا ہے۔

ان گھروں میں سے کچھ تو اتنے بڑے تھے کہ ان میں ایک وقت میں پچاس خاندان رہ سکتے تھے۔ ان کی دیکھ بھال کا خرچہ بہت زیادہ ہے اور ان میں بہت سے گھر ایسے ہیں جو کہ مختلف خاندانوں میں بٹے ہوئے ہیں۔

حویلی

،تصویر کا ذریعہNeelima Vallangi

ایسے میں ان لوگوں کے درمیان ان گھروں کو حاصل کرنے کے لیے قانونی مسئلے بھی چل رہے ہیں۔ اور یہ حویلیاں نجی جائیداد ہیں تو انھیں محفوظ رکھنے میں حکومت بھی کچھ نہیں کر سکتی۔

خوش قسمتی سے ان حویلیوں کی خوبصورتی اور ثقافتی اہمیت کا علم بہت سے لوگوں کو ہے۔ سنہ 1999 میں فرانس سے تعلق رکھنے والی پینٹر ناڈین لی پرنس نے 1802 میں فتح پور میں بنائی گئی نند لال دیورا حویلی کو خریدا اور بڑی مشکل سے اس کی مرمت کروا کر اسے اپنی اصل حالت میں واپس لائیں۔

پاس ہی موجود دنلود اور ناوالگڑھ کے گاؤں میں سیٹھ ارجن داس گوئنکا حویلی اور شری جئے رام داس جی کے خاندانی محل کو عام عوام کے لیے عجائب گھر میں تبدیل کر دیا گیا۔

اس کے علاوہ مالجی کا کمرہ، کولوال کوٹھی اور کاسل منڈاوا جیسی حویلیوں کو ثقافتی ہوٹلوں میں بدل دیا گیا۔ بہت سی حویلیاں شاید ٹھوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر زمیں بوس ہو جائیں لیکن ان کی شان و شوکت دوسری حویلیوں کے ذریعے ہمیشہ قائم رہے گی۔