مجھے مسلمان ہونے کی وجہ سے وزارت سے ہٹایا گیا تھا، برطانوی رکن اسمبلی

ویب ڈیسک  اتوار 23 جنوری 2022
نصرت غنی جونیئر وزیر برائے ٹرانسپورٹ تھیں، فوٹو: فائل

نصرت غنی جونیئر وزیر برائے ٹرانسپورٹ تھیں، فوٹو: فائل

 لندن: برطانیہ کی رکن اسمبلی نصرت غنی نے کہا ہے کہ کنزرویٹو حکومت نے مجھے فروری 2020 میں صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے وزارت سے ہٹا دیا تھا۔

برطانوی اخبار ’’سنڈے ٹائمز‘‘ کے مطابق سابق جونیئر ٹرانسپورٹ منسٹر نصرت غنی نے الزام عائد کیا ہے کہ دو سال قبل ان سے وزارت کا عہدہ صرف اس لیے لے لیا گیا تھا کیوں کہ کابینہ کے کچھ ارکان کو میرے مسلمان ہونے سے مسئلہ تھا۔

39 سالہ نصرت غنی نے مزید کہا کہ پارلیمنٹ میں نظم و ضبط کو یقینی بنانے کی ذمہ داری نبھانے والے ’’چیف وہپ‘‘ مارک اسپینسر نے بتایا تھا کہ کابینہ کے دیگر ارکان آپ کے مسلم عقیدے سے پریشان تھے۔

مسلم رکن اسمبلی نے کہا کہ مجھے بتایا گیا کہ وزارتوں کے ردوبدل کے اجلاس میں میرے مسلمان ہونے کو ایک مسئلے کے طور پر اٹھایا گیا تھا۔ میری اپنی پارٹی کے اس رویے سے میرا اعتماد متزلزل ہوا اور میں نے بعض اوقات سنجیدگی سے اسمبلی کی رکنیت چھوڑنے پر بھی غور کیا۔

خیال رہے کہ نصرت غنی کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب ان کے ایک کنزرویٹو ساتھی ولیم ریگ نے پارلیمانی وہپس پر ممبران پارلیمنٹ کو بلیک میل کرنے کی کوشش کا الزام عائد کیا ہے۔

وزیر اعظم بورس جانسن کے دفتر سے سابق وزیر نصرت غنی کے اس الزام پر فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا تاہم چیف وہپ مارک اسپینسر نے ٹوئٹر پر جواب دیا کہ یہ الزامات مکمل طور پر جھوٹے ہیں اور میں انہیں ہتک آمیز سمجھتا ہوں۔

واضح رہے کہ ماضی میں بھی برطانوی وزیراعظم بورس جانسن مسلمانوں کے خلاف نامناسب بیانات کے لیے اکثر تنقید کی زد میں رہے ہیں۔ اپنے ایک کالم میں انھوں نے برقع پوش خواتین کو ڈاکو اور لیٹر بکس سے تشبیہ دی تھی۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔