کیا عمران خان کا ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ ’محض سیاسی نعرہ‘ تھا؟

  • منزہ انوار
  • بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
نوکری

،تصویر کا ذریعہGetty Images

پاکستان کے وزیِراعظم عمران خان نے حکومت میں آنے سے قبل متعدد مرتبہ جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ’تحریکِ انصاف کے حکومت میں آنے کے بعد پاکستان وہ ملک بنے گا جہاں غریب ملکوں سے لوگ نوکریاں ڈھونڈنے آیا کریں گے۔ اور پاکستانی سفارت خانوں کے باہر ویزا لینے والوں کی قطاریں لگی ہوں گی۔‘

اقتدار میں آنے کے بعد تحریکِ انصاف رہنما فیصل واوڈا (اپریل 2019) نجی ٹی وی پر یہ کہتے بھی سنے گئے کہ ’اتنی نوکریاں آنے والی ہیں کہ بندے کم پڑ جائیں گے۔۔۔ اور یہ سب سالوں میں نہیں محض چار ہفتوں میں ہو گا۔۔۔ کاروبار کرنا اتنا آسان ہو جائے گا کہ پان اور ٹھیلے والا بھی کہے گا مجھ سے ٹیکس لے لو۔‘

ایک کروڑ نوکریوں سے لے کر معاشی خوشحالی کے جو دعوے تحریکِ انصاف ک رہنماؤں نے کیے تھے، آج تقریباً ساڑھے تین سال بعد ملک میں شرحِ بیروزگاری پر نظر ڈالیں تو صورتحال ان وعدوں سے یکسر مختلف نظر آتی ہے۔

تاہم دوسری جانب حکومتی وزرا کا ماننا ہے کہ ملک میں بیروزگاری میں کمی آئی ہے اور وہ ان لاکھوں پاکستانیوں کی مثال پیش کرتے ہیں جو روزگار کے لیے ملک سے باہر گئے۔

جون 2020 میں اس وقت وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے اورسیز پاکستانیز زلفی بخاری نے کہا تھا کہ وزیرِ اعظم نے 9 لاکھ 70 ہزار افراد کو نوکری کی غرض سے بیرونِ ملک بھیجا ہے۔ انھوں نے اسے پاکستان تحریکِ انصاف کی بہت بڑی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ صرف 18 مہینوں میں تقریباً 10 لاکھ افراد کو بیرونِ ملک نوکری ملی ہے۔

اسی طرح 5 اکتوبر 2021 کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیِر اطلاعات فواد چوہدری کا بھی کچھ ایسا ہی کہنا تھا کہ ’تین سالوں میں بات ایک کروڑ نوکریوں سے بہت آگے جا چکی ہے۔‘ اور انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ تقریباً ساڑھے 16 لاکھ لوگ نوکریوں کے لیے باہر گئے ہیں۔

گذشتہ ماہ بیرونِ ملک جانے والے پاکستانیوں کا ڈیٹا شئیر کرتے ہوئے ایک بار پھر فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ’کورونا کے باوجود تین سال میں 11 لاکھ لوگوں کو تو صرف بیرون ملک نوکری ملی ہے، اگلے دو سالوں میں پوری امید ہے 20 لاکھ لوگ بیرون ملک جائیں گے۔‘

fawadchaudhry

،تصویر کا ذریعہ@fawadchaudhry

کیا آپ بھی سوچ رہے ہیں کہ تین سال میں 16 لاکھ پاکستانی نوکریوں کے لیے باہر گئے ہیں یا 11 لاکھ؟ اس حوالے سے درست تعداد جاننے کے لیے بی بی سی نے وزیِراعظم کے سابق معاون خصوصی برائے اورسیز پاکستانیز زلفی بخاری نے بات کی، جنھوں نے 18 اگست 2018 سے 17 جنوری 2022 تک یہ تعداد 1338031 بتائی ہے۔

چند روز قبل ایپکس کمیٹی آن افغانستان کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم عمران خان نے افغانستان میں انسانی بحران سے بچنے کے لیے متعلقہ حکام کو طبی، آئی ٹی، معاشی اور اکاؤنٹنگ سے وابستہ تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ افرادیِ قوت افغانستان بھیجنے کی ہدایت کی۔ اگرچہ اس آفر کو افغانستان میں زیادہ پسند نہیں کہا گیا اور کچھ حلقوں کی جانب سے شدید ردِعمل سامنے آیا ہے۔

بے روزگاری میں اضافہ

جبکہ ورلڈ بینک کی ویب سائٹ پر شائع انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او سٹیسٹ ڈیٹا بیس) کے مطابق سنہ 2017 میں بیروزگاری کی شرح 3.94 سے بڑھ کر 2018 میں 4.08 ، 2019 میں 3.94 اور 2020 میں 4.65 فیصد تک جا پہنچی۔

پاکستان میں گذشتہ 20 سالوں کے دوران بیروزگاری کی شرح
،تصویر کا کیپشنپاکستان میں گذشتہ 20 سالوں کے دوران بیروزگاری کی شرح

پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت تربیت یافتہ افراد کو ملک میں نوکریاں اور روزگار کے مواقع دینے کے برعکس بیرونِ ملک بھجوانے پر زور دیتی اور حکومت میں آنے سے قبل کیے گئے وعدے پورے کرنے میں کچھ خاص کامیابی نہیں حاصل کر پائی ہے۔

سوشل میڈیا سے لے کر ٹاک شوز تک، اکثر لوگ یہی سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ حکومت میں آنے سے قبل نوکریاں دینے اور کاروبار کے مواقع فراہم کرنے کے جو وعدے کیے گئے ان کا کیا بنا؟

کیا ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ محض ایک سیاسی نعرہ تھا؟

ماہر معاشیات قیصر بنگالی عمران خان کے ایک کروڑ نوکریوں کے وعدے کو ’صرف ایک سیاسی بیان‘ قرار دیتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اس کی اہمیت اس وقت بھی میری نظر میں نہیں تھی اور وقت کے ساتھ ثابت ہو گیا کہ ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ محض ایک سیاسی نعرہ تھا۔‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ ’عمران خان نے ایک ہی لائن میں یہ کہہ تو دیا تھا کہ ہم ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر بنائیں گے، لیکن اسی وقت ہم یہ پوچھ رہے تھے کہ اسے کریڈیبل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ایک پلان بھی ساتھ ہو جس میں بتایا جائِے کہ اس وعدے کی تکمیل کے لیے وسائل یہاں یہاں سے آئیں گے، مگر ایسا کچھ نہیں تھا۔‘

ان کے مطابق ہمیں توقع نہیں کہ اس بیان پر عمل ہو گا۔ کیونکہ جب آپ نے ہوم ورک نہیں کیا تو اس وعدے پر عمل درآمد کیسے کریں گے۔

’آئی ایم ایف میں جانا بہت بڑی سٹریٹجک غلطی تھی‘

آئی ایم ایف

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اس حوالے سے ماہر معاشیات اور نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں شعبہ معاشیات کے ڈین ڈاکٹر اشفاق حسن خان کہتے ہیں کہ اس وقت عمران خان کو یہ نہیں پتا تھا کہ آئی ایم ایف کے پاس بھی جانا پڑے گا اور کوئی وبا بھی آ سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت اگر میں بھی انھیں کوئی کیلکولیشن کرکے دیتا تو یہی بتاتا کہ ’ہم معیشیت کی شرح نمو 7-7.50 فیصد تک حاصل کر سکتے ہیں۔‘

بی بی سی سے بات کرے ہوئے ڈاکٹر اشفاق حسن خان کہتے ہیں کہ اس بارے میں کوئی دو رائے نہیں تھی اور ہم یہ کر سکتے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں معاشی صورتحال اس رفتار سے تبدیل نہیں ہوئی جس سے ہونا چاہیے تھی اور وہ اس کا ذمہ دار کووڈ کی وبا کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف سے قرض لینے کو بھی سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’میرے نزدیک آئی ایم ایف میں جانا بہت بڑی سٹریٹجک غلطی تھی۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ انھوں نے وزیرِ اعظم عمران خان سے کہا تھا کہ ’اگر آپ آئی ایم ایف کے پروگرام میں جائیں گے تو ایک کروڑ نوکریوں کا جو وعدہ آپ نے قوم سے کیا ہے وہ پورا ہونا تو دور کی بات، جو ابھی نوکری پیشہ ہیں ان کی نوکریاں ہی بچ جائیں تو بڑی بات ہو گی۔‘

ڈاکٹر اشفاق حسن کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے پروگرام ملک کی معاشی رفتار سست کر دیتے ہیں اور اگر کسی حکومت کی معیشت کا پہیہ تیزی سے نہ گھومے تو ملک میں بیروزگاری، غربت اور قرضوں کا بوجھ بڑھتا ہے۔

دبئی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

قیصر بنگالی کہتے ہیں کہ ’جو لوگ ملک سے باہر نوکری کرنے جاتے ہیں وہ مجبوری میں جاتے ہیں اور کوئی ملک اس بات پر فخر نہیں کر سکتا کہ ہم یہاں تو آپ کو نوکری نہیں دے سکے مگر باہر دے رہے ہیں۔‘

ان کے مطابق ہر شخص کو اپنے ملک میں اپنے گھر میں رہتے ہوئے نوکری ملنی چاہیے ’کیونکہ جو باہر جاتے ہیں وہ اپنی فیملی کو چھوڑ کر جاتے ہیں اور دو یا ایک سالوں میں ایک بار گھر والوں سے ملنے آ پاتے ہیں۔‘

قیصر بنگالی کہتے ہیں کہ ’باہر جانے والا شخص اور ان کا خاندان اس نوکری کی قیمت ادا کرتے ہیں۔‘

ان کا ماننا ہے کہ بیرونِ ملک نوکری کی غرض سے جانے کا عمل ’ڈیمانڈ ڈریون‘ ہے یعنی وہاں کسی ہنر کی ضرورت پڑنے پر یہاں سے لوگ اپلائی کرکے باہر جاتے ہیں ’حکومت نے انھیں باہر نہیں بھجوایا، جو لوگ گئے ہیں وہ خود گئے ہیں۔‘

’موجودہ صورتحال ڈگری ہولڈرز کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے‘

ڈاکٹر اشفاق حسن خان کا کہنا ہے کہ ہر سال پاکستان میں تقریباً دو ملین نوجوان جاب مارکیٹ میں داخل ہوتے ہیں اور ان سب کو نوکری دینے کے لیے ضروری ہے کہ معیشیت 7-8 فیصد سالانہ بڑھے۔ لیکن اگر 7-8 فیصد کے بجائے صرف 4 فیصد بڑھ رہی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ سب کو نوکری نہیں مل رہی اور ملک میں بے روزگار لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ڈاکٹر اشفاق تعمیراتی شعبے میں پیدا ہونے والی نوکریوں کو مزدور طبقے کے لیے خوش آئیند قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’مزدور طبقے کی کہیں نہ کہیں کھپت ہو جاتی ہے، ہوتی تو وہ بہت کم آمدن والی تنخواہیں ہیں جن سے ان کی زندگی میں بہت جلد بہتری تو نہیں آ سکتی مگر ان کا گزارہ چل جاتا ہے۔‘

تاہم ان کا کہنا ہے کہ ’موجودہ صورتحال ڈگری ہولڈرز خاص کر گریجویٹس کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ڈگری ہولڈرز میں 20 فیصد بیروزگاری ہے۔‘

فواد چوہدری: ’جب ہم نوکریوں کی بات کرتے ہیں تو لوگ سمجھتے ہیں ہم سرکاری نوکریاں دیں گے‘

فواد چودھری

اس کے جواب میں پاکستان کے وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری کہتے ہیں کہ بہت سے لوگ کنفیوز ہیں۔ ’جب ہم نوکریوں کی بات کرتے ہیں تو لوگ سمجھتے ہیں ہم سرکاری نوکریاں دیں گے۔ سرکاری نوکریاں تو نہیں دی جا سکتیں، ایسے مواقع پیدا کیے جاتے ہیں جہاں لوگوں کو نوکریاں ملیں۔‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ ’ملک کا روزگار معاشی ترقی سے جڑا ہوتا ہے اور اگر ایک طویل عرصے بعد ملکی معیشیت پانچ فیصد کی شرحِ نمو پر بڑھ رہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں نوکریاں پیدا ہو رہی ہیں، بے روزگاری میں کمی آ رہی ہے اور غربت کی شرح میں بھی کمی آئی ہے۔‘

ان کا دعویٰ ہے کہ ٹیکٹسائل کی صنعت میں پہلے سے دگنی نوکریاں پیدا ہوئی ہیں، تعمیراتی شعبے میں ہزار ارب کی سرمایہ کاری ہوئی ہے، زراعت کے شعبے سے وابستہ افراد کو 1100 ارب آمدن ہوئی ہے، آئی ٹی کے شعبے کی برآمدات میں 47 فیصد اضافہ ہوا ہے اور پاکستان میں سٹاک ایکسچینج سے رجسٹرڈ 100 بڑی کمپنیوں نے رواں برس 929 ارب روپے کا منافع کمایا ہے۔۔۔۔ وہ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے ان تمام شعبوں میں نوکریاں پیدا ہو رہی ہیں۔

’جتنے بھی مواقع پیدا کر لیں لگتا ہے کم ہیں‘

https://www.pbs.gov.pk/

،تصویر کا ذریعہhttps://www.pbs.gov.pk/

،تصویر کا کیپشنپاکستان شماریات بیورو کی جانب سے شائع کیے گئے لیبر فورس سروے کے مطابق ملک میں سنہ 2017-18 کے دوران بے روزگاری کی شرح 5.8 فیصد تھی جو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے سال 2018-19 میں بڑھ کر 6.9 فیصد پر جاپہنچی

وزیرِ اطلاعات کا کہنا ہے کہ ملک کے اندر بھی نوکریاں پیدا پو رہی ہیں اور باہر بھی لوگوں کو نوکریاں مل رہیں ہیں۔ تاہم وہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ آبادی میں اضافے کو قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’1990 کے مقابلے میں آبادی میں اتنا زیادہ اضافہ ہوا ہے کہ جتنے بھی مواقع پیدا کر لیں لگتا ہے کم ہیں۔‘

انھوں نے ایکانومسٹ کی گلوبل نارملٹی انڈیکس رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے (اس رپورٹ میں ریٹرن ٹو نارمل لائف کو ٹریک کیا گیا تھا) دعویٰ کیا کہ پاکستان میں کووڈ کے دوران جن افراد کی نوکریاں ختم ہوئی تھیں، ان سب کو واپس نوکری مل چکی ہے۔

کیا بیرونِ ملک نوکری کے لیے جانے والے پاکستانیوں کا کریڈٹ بھی حکومت کو جاتا ہے؟

فواد چوہدری کی ٹویٹ کے بعد سوشل میڈیا پر کئی افراد نے ان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’ملک میں نوکریاں نہیں ہیں اور مجبوری کی غرض سے بیرونِ ملک جانے والوں کا کریڈٹ بھی حکومت خود لینے کی کوشش کر رہی ہے۔‘

تو کیا بیرونِ ملک نوکری کے لیے جانے والے پاکستانیوں کا کریڈٹ بھی حکومت کو جاتا ہے؟ اور اگر ایسا ہی ہے تو وہ کونسی حکومتی پالیسیاں ہیں جنھوں نے ان افراد کی بیورنِ ملک نوکری کے لیے جانے میں مدد کی؟ سابق معاون خصوصی برائے اورسیز پاکستانیز زلفی بخاری اس کا 100 فیصد کریڈٹ موجودہ حکومت کو دیتے ہیں۔

زلفی بخاری

بی بی سی بات کرتے ہوئے زلفی بخاری کا کہنا ہے کہ اس حکومت نے نوکری کی غرض سے جانے والے افراد کو سہولت فراہم کی ہے اور مزدوروں کو ان کے حقوق سے آگاہ کرتے ہوئے بھرتی کے مجموعی عمل میں اصلاحات متعارف کرائی ہیں جس میں ڈیجیٹائزیشن اور پورٹل سب سے اہم ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہم نے سارے پراسس کو ڈیجیٹائز کر دیا ہے، جہاں رشوت دے دے کر آپ کو دو تین لگتے تھے، اب 40 منٹ میں آپ کا کام ہو جاتا ہے۔ اور بائیو میٹرک کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ آپ اگر مالاکنڈ یا کسی اور شہر میں ہیں تو خود کو رجسٹر کرانے پنڈی نہیں آنے پڑتا بلکہ وہیں بیٹھے یہ کام کر سکتے ہیں، جس سے آسانی کے ساتھ ساتھ آنے جانے کا خرچ بھی بچ جاتا ہے۔‘

وہ مانتے ہیں کہ کسی بھی محکمے میں کرپشن مکمل طور پر ختم نہیں ہو سکتی تاہم حکومت کی زیرو ٹالرینس پالیسی کے مطابق اس سارے عمل کو ڈیجیٹائز کرنے سے اس میں بدعنوانی میں کمی آئی ہے۔ اور پی ایم پورٹل کے ساتھ شکایت کے طریقہ کار کو جوڑنے سے بھی بدعنوانی کو روکنے میں مدد ملی ہے۔

زلفی بخاری کے مطابق 400 افراد کو بلیک لسٹ کرکے ایف آئی اے کو رپورٹ کیا گیا، اور ان سب نے عام شہریوں کی مدد کی ہے۔

گد؛تہ تین سال کے دوران بیرونِ ملک بھجوائے

،تصویر کا ذریعہSource: OPHRD/Courtesy Zulfikar Abbas Bukhari

،تصویر کا کیپشنتحریکِ انصاف کے حکومت میں آنے کے بعد سے اب تک روزگار کے لیے بیرونِ ملک بھجوائے گئے افراد کے سرکاری اعداد و شمار

وہ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ سب لوگ مجبوری میں نوکری کے لے باہر جاتے ہیں، بلکہ کچھ بہتر مواقع کی تلاش میں بھی باہر کا رخ کرتے ہیں۔ کویت جانے والے طبی عملے کی مثال دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’جو بھی ڈاکٹر، نرسیں وہاں گئے ہیں اپنے خاندانوں کے ساتھ گئے ہیں اور ان کی زندگی بہتر ہوئی ہے اور انھیں خود شوق تھا باہر جانے کا۔‘

زلفی بخاری کہتے ہیں کہ ’اگر کوئی نوکری کے لیے باہر جانا چاہتا ہے تو حکومت کا کام ہے اس کی مدد کرے، اور یہی کام میں نے کیا ہے اور جس کا نتیجہ ترسیلات میں نظر آیا ہے۔‘

اس حوالے سے فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ یہ وہ افراد نہیں جو انسانی سمگلنگ کے ذریعے گئے بلکہ یہ ڈیٹا (اوپر دی گئی ٹویٹ میں شئیر کیا گیا) ان افراد کا ہے جو ملکوں کے درمیان آفیشل چینلز، معاہدوں اور حکومت کے لائسنس یافتہ ٹریول آپریٹر کے ذریعے بیرونِ ملک گئے ہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس کے ذریعے ملکی معیشیت میں بہتری آئی اور ترسیلات میں اضافہ ہوا اور وہ آئندہ بھی اس شعبہ پر توجہ دیں گے تاکہ بڑھتی آبادی کے تناسب سے لوگوں کو باہر بھی نوکریوں کے مواقع مل سکیں۔

آبادی کے ساتھ بڑھتی بے روزگاری پر قابو پانے کے لیے اقدامات کے حوالے سے فواد چوہدری کامیاب جوان اور کامیاب پاکستان پروگرامز کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کے تحت ڈگری ہولڈر سے لے کر کسانوں اور مزدورں کو بلا سود قرضے دے جا رہے ہیں تاکہ وہ اپنا کاروبار کر سکیں اور نوکریوں کے مزید مواقع پیدا ہوں۔

ایمن سروش، پاکستانی فری لانسرز

اس حوالے سے زلفی بخاری کا کہنا ہے کہ حکومت اور خان صاحب کی توجہ آئی ٹی سیکٹر پر ہے تاکہ ہمارے بلاک چین ورکرز اور فری لانسرز کو روزگار اور نوجوانوں کے لیے مزید نوکریاں پیدا ہو سکیں۔ اس کے علاوہ وہ پُرامید ہیں کہ کووڈ کے خاتمے کے ساتھ جیسے جیسے سعودی عرب جیسے ملک فلائٹس کھول رہے ہیں اس سے ملک میں بیروزگاری کی صورتحال میں بہتری آئے گی۔

زلفی بخاری نے یہ بھی امید ظاہر کی کہ جاپان جہاں عمر رسیدہ افراد کی تعداد زیادہ ہے اور انھیں جلد پانچ لاکھ ہنر مند افراد کی ضرورت ہو گی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ تو نہیں ہو سکتا کہ پورے پانچ لاکھ پاکستان سے ہی جائیں مگر پاکستان کو اس میں بہت بڑا کوٹا مل سکتا ہے کیوںکہ پاکستان وہ پہلا ملک ہے جس نے ان کے ساتھ آئی ٹی سیکٹر سمیت 14 شعبوں میں معاہدہ کیا تھا۔‘

یہ بھی پڑھیے

زلفی بخاری کے مطابق 13 سال بعد پاکستانیوں کو کویت کے ویزہ پر جانے کی اجازت ملی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مواقع بہت ہیں اگر صحیح طرح سے فوکس کیا جائے تو پاکستان بیرونِ ملک افرادی قوت بھجوانے والے سب سے بہترین ممالک کی فہرست میں شامل ہو سکتا ہے۔

’یہ حکومت بھی ماضی کی حکومتوں کی پالیسیاں چلا رہی ہے‘

قیصر بنگالی ک مطابق ’پچھلے 40 سال میں جتنی بھی حکومتیں آئی ہیں، کسی نے بھی روزگار کے مواقعوں میں اضافے کے کوئی اقدامات نہیں کیے۔ ہر قسم کی حکومت آئی ہے مگر کسی نے کچھ نہیں کیا اور موجودہ حکومت نے بھی کچھ نہیں کیا کیونکہ یہ بھی ماضی کی حکومتوں کی پالیسیاں چلا رہی ہے۔‘

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کووڈ کی وجہ سے نوکریاں ختم ہونے کا الزام ہم حکومت کو نہیں دے سکتے تاہم ’یہ حکومت ایسی پالیسیز کی شروعات کر سکتی ہے جن سے آگے چل کر روزگار کے مواقع پیدا ہو سکیں مگر اس وقت معاشی حالات کچھ یوں ہیں کہ حکومت پرانے قرضے اتارنے کے لیے نئے قرضے لے رہی ہے۔ کوئی نئے ترقیاتی منصوبے نہیں بن رہے نہ بننے کے امکان ہیں۔‘

عمران

،تصویر کا ذریعہGetty Images

قیصر بنگالی کا مزید کہنا ہے کہ ’روزگار کی امید ترقیاتی بجٹ سے ہوتی ہے مگر جب حکومت کا ترقیاتی بجٹ ہی صفر ہو جائے گا تو روزگار کی امید نہیں رہے گی۔ اس وقت ایسا کوئی اقدام نظر نہیں آتا جس سے بیروزگاری کی شرح کم ہو سکتی ہے بلکہ اس میں اضافہ ہی ہو گا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ پچھلے 40 سال میں معیشت کے دو شعبوں زراعت اور صنعت پر توجہ نہیں دی گئی، کچھ ایسی پالیسیز بنائی گئی کہ کارخانے بند ہو گئے ہیں اور جو بھی خاندان پیسہ بنا رہے ہیں وہ سٹاک یا پراپرٹی مارکیٹ میں سٹے بازی سے بنا رہے ہیں۔۔۔ مگر اس سے روزگار پیدا نہیں ہوتا۔

قیصر بنگالی اور ڈاکٹر اشفاق حسن خان دونوں کا ماننا ہے کہ آبادی میں اضافے کے ساتھ بیروزگاری کی شرح بڑھے گی اور اگر حکومت بیروزگاری کی بڑھتی شرح پرقابو پانا چاہتی ہے تو اسے اپنی پالیسیاں بدلنی پڑیں گی۔

ڈاکٹر اشفاق حسن خان کے مطابق حکومت کو زراعت پر توجہ دینی ہو گی جہاں 42 فیصد لوگ کام کر رہے ہیں ’لائیو سٹاک اور ڈیری سیکٹر پر مزید توجہ دیں کیونکہ اس میں بہت لوگوں کو روزگار مل سکتا ہے۔ چھوٹے اور درمیانے پیمانے پر کاروبار کرنے والوں کا ہاتھ تھامیں۔ ایسی پالسیاں بنائیں جن سے ایسے کاروبار کرنے والوں کو سہولیات ملیں، انھیں اپنا انفراسٹرکچر بہتر بنانے میں مدد ملے۔ اور ان پر لاگو ٹیکس کا ازسرِ نو جائزہ لیں۔‘