آنکھوں کی پیوندکاری: آپریشن کے بعد جب ننھا شہاب والدین کو دیکھ کر مسکرا دیا

  • محمد زبیر خان
  • صحافی
شہاب کی آنکھ کا کامیاب آپریشن

،تصویر کا ذریعہDr Qazi Wasiq

،تصویر کا کیپشنشہاب کی آنکھ کا کامیاب آپریشن

آپریشن کے ایک دن بعد جب ننھے شہاب کی پٹی کھلنے کا وقت ہوا تو ڈاکٹروں سمیت ہر کوئی انتہائی اضطراب اور بے چینی کا شکار تھا۔ شہاب کو ان کے والد محمد ساجد نے اپنی گود میں اٹھا رکھا تھا۔

ڈاکٹر نے جب پٹی کھولی تو شہاب کے والدین اور عزیز و اقارب سمیت تمام عملہ بھی بےچینی سے یہ سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ آیا شہاب دیکھ پا رہا ہے کہ نہیں۔

15 ماہ کا شہاب چند لمحوں میں خود کو نئے ماحول کے مطابق ڈھال لیتا ہے، جس میں وہ دیکھنے کے قابل ہوتا ہے تو اس کے بعد مسکرا دیتا ہے۔

ان کے والد اور ایبٹ آباد کے رہائشی محمد ساجد کے مطابق ’جب پٹی ہٹائی گئی تو وہ مسکرایا، جس سے ہمیں محسوس ہوا کہ وہ دیکھ سکتا ہے۔ بس، پھر کیا تھا ہمیں تو ایسے لگا جیسے ہم دوبارہ زندہ ہو گئے ہوں۔‘

چشم تبدیلی کا یہ آپریشن پاکستان آئی بینک سوسائٹی، کراچی کے زیر انتظام چلنے والے آئی اینڈ جنرل ہسپتال میں ڈاکٹر فیصل مرتضیٰ کی سربراہی میں ماہر ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے کیا۔

شہاب کا آپریشن کرنے والے ڈاکٹر فیصل مرتضیٰ نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اب تک کوئی دو ہزار کورنیا کے تبدیلی کے آپریشن کرچکے ہیں ’مگر جب شہاب کی مسکراہٹ دیکھی تو محسوس ہونے والی خوشی بیان نہیں کی جاسکتی۔‘

ان کے مطابق انھوں نے اپنی اہلیہ اور اپنے ساتھی ڈاکٹرز سے کہا کہ ’شاید ہم لوگوں نے اپنی زندگی کا بہت بڑا کام کردیا ہے۔‘

’جب بچہ مسکرایا اور ماں، باپ نے اس کا ماتھا چوما تو اتنی خوشی ہوئی جو بیان سے باہر ہے۔ بچے کو نئی زندگی مل گئی تھی۔‘

شہاب

،تصویر کا ذریعہDr Qazi Wasiq

،تصویر کا کیپشنشہاب

بچے کے والد محمد ساجد بتاتے ہیں کہ جب شہاب پیدا ہوا تو وہ ٹھیک ٹھاک تھا اور دیکھ سکتا تھا۔ ’مگر پھر پتا نہیں کیا ہوا کہ اس کی بینائی چلی گئی۔ جب ہمیں سمجھ آئی تو اس کے بعد سے میں ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کے پاس مارا مارا پھرتا رہا ہوں۔‘

محمد ساجد کہتے ہیں ’ہمیں اس بات کا اندازہ کچھ ہفتے قبل ہوا کہ شہاب دیکھ نہیں سکتا ہے جس کے بعد ہم لوگوں نے ایبٹ آباد اور ہزارہ ڈویژن کا کوئی ہسپتال اور ڈاکٹر نہیں چھوڑا۔‘

ان کے مطابق ’میں خود کئی سنٹرز پر گیا۔ دربدر پھرتا رہا۔ یہاں تک کہ تین ماہ سے مزدوری پر نہیں گیا تھا۔‘

ان کے مطابق وہ اپنے لختِ جگر کے علاج کی خاطر بھاری فیسیں بھر چکے ہیں اور کئی راتیں سو نہیں سکے۔ اتنی پریشانی کاٹی تھی جو بیان سے باہر ہے۔‘

ان کے مطابق وہ اپنے بیٹے کا کبھی ایک ٹیسٹ تو کبھی دوسرا ٹیسٹ کراتے اور اسے کبھی ایک ہسپتال اورکبھی دوسری ہسپتال لے کر جاتے تھے۔

محمد ساجد کا کہنا تھا کہ مجھے کبھی ڈاکٹر کوئی دوائی دیتے اور کبھی کہتے کہ اس کا آپریشن ہوگا، جس پر پانچ چھ لاکھ روپے خرچ ہوں گے جبکہ اس کے لیے آنکھ (کورنیا) بھی چاہیے ہو گی۔

ان کے مطابق ’مزدوری پر نہ جانے کی وجہ سے میری جیب میں ایک کوڑی نہیں تھی تو ایسے میں پانچ چھ لاکھ کا انتظام کیسے کرتا اور پھر آنکھ کہاں سے لاتا‘؟

محمد ساجد کے مطابق ’پھر مجھے کسی نے پاکستان آئی بینک سوسائٹی کراچی کا بتایا تو بڑی امید کے ساتھ کراچی پہنچ گیا، جہاں پر ادارے کے سربراہ ڈاکٹر قاضی واثق اورڈاکٹر فیصل مرتضیٰ نے بتایا کہ امریکہ سے آنکھوں کا عطیہ پہنچ رہا ہے اور پھر ہم شہاب کی آنکھ میں پیوند کاری کر دیں گے‘۔

ڈاکٹرز

،تصویر کا ذریعہDr Faisal Murtaza

آپریشن کا فیصلہ آسان نہیں تھا

ڈاکٹر فیصل مرتضیٰ کا کہنا ہے کہ شہاب بہت کم عمر ہے۔ یہ جب ہمارے پاس پہنچا تو ہماری پوری ٹیم ہی شہاب کے لیے پریشان ہو گئی تھی کہ اتنا کم عمر بچہ اور آنکھوں کے انفیکشن کی وجہ سے بینائی سے محروم ہو گیا ہے۔

ان کے مطابق ’اس کی دونوں آنکھوں میں سفیدی تھی، یہ بالکل بھی نہیں دیکھ پا رہا تھا۔ اس کا بس ایک ہی حل تھا کہ اس کی آنکھ کا کورنیا تبدیل کردیا جائے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ اتنے چھوٹے بچے کا آپریشن کرنا بذات خود ایک بڑا خطرہ تھا۔

’اس میں بڑے مسائل تھے۔ میں نے کورنیا کی تبدیلی کے کئی آپریشن کیے ہیں مگر اتنے چھوٹے بچے کا اس سے پہلے آپریشن نہیں کیا تھا، جس کے لیے ہم لوگوں نے مشاورت کا آغاز کردیا تھا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک رائے تو یہ تھی کہ کچھ سال انتظار کیا جائے اور جب شہاب چار یا پانچ سال کا ہوجائے تو پھر آپریشن کیا جائے۔

’مگر اس میں خدشہ تھا کہ دماغ میں موجود دیکھنے والا سسٹم کیا آپریشن کے بعد بھی کام کرے گا۔ اور ایسے میں کیا جب بچہ دیکھنے کی کوشش کرے گا تو اس کی آنکھیں ایسا کر سکیں گی‘۔

ڈاکٹرز کو خدشہ تھا کہ بچہ کہیں مستقل اندھا ہی نہ ہوجائے۔ اس لیے انھوں نے فیصلہ کیا کہ شہاب کا آپریشن کورنیا کی دستیابی پر فوراً کردیا جائے۔

ڈاکٹر فیصل مرتضیٰ کے مطابق ایک اوربڑا مسئلہ بچے کی بے ہوشی کا تھا، جس کے لیے اس کام میں مہارت رکھنے والے ہسپتال کے ایک اور ڈاکٹر ساجد کی خدمات حاصل کی گئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جس روز امریکہ سے ہمارے پاس پانچ کورنیا پہنچے، اس دن وہ اور ڈاکٹر ساجد دن ایک بجے ہی ہسپتال پہنچ گئے تھے۔ ’ہم لوگوں نے اپنی تمام مصروفیات ترک کر دیں۔ ہماری خواہش تھی کہ جتنی جلدی ممکن ہوسکے کورنیا لگا دیا جائے تو اتنا ہی بہتر ہوگا‘۔

مگر مختلف رکاوٹوں کے سبب ہم لوگ بھوکے پیاسے شہاب کو پانچ بجے تک ہی آپریشن تھیڑ میں لے جانے میں کامیاب ہوئے تھے۔

شہاب

،تصویر کا ذریعہDr Qazi Wasiq

،تصویر کا کیپشنشہاب

کورنیا پھڑک کر باہر نکل رہا تھی

ڈاکٹر فیصل مرتضیٰ کہتے ہیں کہ جب میں نے شہاب کی ایک آنکھ کھولی تو وہ بری طرح متاثر تھی۔

شہاب کی اپنی آنکھ کی کورنیا اندر چپکا ہوا تھا۔

’اس کی پوری آنکھ متاثر تھی، جسے ٹھیک کرنے کے لیے بہت محنت کی گئی۔ کورنیا نکالا تو خون بہنا شروع ہو گیا، پھر پہلے اس کو روکا، جس کے بعد نئی کورنیا کی پیوند کاری کر دی گئی۔

ان کے مطابق شہاب تو بچہ تھا جبکہ عطیہ کیا ہوا کورنیا سائز میں بڑا تھا۔ جب ہم نے آنکھ کی پیوند کاری شروع کی تو کورنیا پھڑک کر باہر نکل رہی تھا۔ ’میں نے ڈاکٹر ساجد سے کہا کہ اس کے جسم کا دباؤ کم کریں۔ یہ ایک مشکل کام تھا مگر ڈاکٹر ساجد نے اچھے سے کیا۔ اس کے جسم کا دباؤ کم ہوا تو میں نے اس ٹانکے لگانا شروع کردیے تھے‘۔

ڈاکٹر فیصل مرتضیٰ کہتے ہیں کہ ہم بہت احتیاط سے یہ سب کر رہے تھے اور ایک ایک ٹانکا بہت سوچ سمجھ کر لگا رہے تھے۔

’ہمارے پاس معمولی سے غلطی کی بھی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ عموماً کورنیا کی تبدیلی آپریشن میں آدھا گھنٹہ لگتا ہے مگر اس آپریشن میں ایک گھنٹہ یعنی معمول سے دگنا وقت صرف ہوا تھا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ واضح رہنا چاہیے کورنیا کو اچھے سے اپنی جگہ پر لگانے کے لیے بھی معمول سے ہٹ کر کام کرنا پڑا تھا۔ عموماً کورنیا تبدیلی کے آپریشن میں بارہ ٹانکے کافی ہوتے تھے مگر اس میں ہمیں اٹھارہ ٹانکے لگانے پڑے تھے۔

ڈاکٹر فیصل مرتضیٰ کہتے ہیں کہ جب آدھے سے زیادہ ٹانکے لگا دیے تو اسی وقت اپنے تجربے کی بنا پر سمجھ گیا تھا کہ آپریشن کامیاب ہوچکا ہے۔ ویسے بھی شہاب کی آنکھ میں جس کورنیا کی پیوند کاری کی گئی وہ بہت صاف ستھرا تھا۔

ڈاکٹر فیصل مرتضیٰ کے مطابق کچھ عرصے تک شہاب کا معائنہ وغیرہ چلتا رہے گا، جس کے بعد حالات کے مطابق اس کی دوسری آنکھ کا کورنیا بھی تبدیل کرنے کے بارے میں سوچا جائے گا۔

’متعدد لوگ آنکھوں یعنی کورنیا کے عطیے کے انتظار میں اندھیروں میں زندگی گزار رہے ہیں‘

ڈاکٹر قاضی واثق پاکستان آئی بینک سوسائٹی کے میڈیکل ڈائریکٹر ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ شہاب کی مسکراہٹ لوٹنے سے اس کا پورا خاندان واپس زندگی کی طرف لوٹ آیا ہے مگر اس وقت متعدد لوگ آنکھوں یعنی کورنیا کے عطیے کے انتظار میں اندھیروں میں زندگی گزار رہے ہیں۔

ہمیں ان سب کو بھی زندگی کی طرف واپس لوٹانے کے حوالے سے سوچنا ہوگا۔

فیصل مرتضی

،تصویر کا ذریعہDr Faisla Murtaza

سری لنکا بڑا عطیہ دینے والا ملک

ڈاکٹر قاضی واثق کہتے ہیں کہ ہمارے اندازوں کے مطابق اس وقت پاکستان میں کوئی ساڑھے تین لاکھ کے لگ بھگ لوگ دیکھ نہیں سکتے ہیں۔ ان لوگوں کا واحد علاج کورنیا کا عطیہ ہے، جس کو آنکھوں کا عطیہ بھی کہا جاتا ہے، جس کے بعد وہ لوگ دیکھنے کے قابل ہوسکتے ہیں۔

ڈاکٹر قاضی واثق کے مطابق پاکستان میں اب تک آنکھیں عطیہ کرنے کے بارے میں ذیادہ سوچ اور شعور پیدا نہیں ہوا ہے، ہمارے اندازوں کے مطابق اب تک کوئی ہزار پندرہ سو لوگوں نے آنکھیں عطا کی ہوں گی۔ یہ تعداد کچھ زیادہ بھی ہوسکتی ہے مگر اتنی زیادہ نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سب سے زیادہ آنکھیں سری لنکا سے عطیہ ہوئی ہیں۔ اب تک کوئی 35 ہزار کے قریب آنکھوں کے عطیات ہمیں سری لنکا سے مل چکے ہیں۔

ڈاکٹر قاضی واثق کے مطابق سری لنکا کے بعد امریکہ دوسرا ملک ہے، جہاں سے ہمیں آنکھوں کے عطیات وصول ہورہے ہیں۔

امریکہ سے ہمارے اندازوں کے مطابق ہمیں چھ ہزار کے قریب عطیات موصول ہوئے۔ اس کا آغاز سنہ 2017 میں امریکہ میں موجود پاکستانی ڈاکٹروں کی تنظیم ایسوسی ایشن آف پاکستانی فزیشن امریکہ (اپنا) نے کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ساڑھے تین لاکھ لوگوں کا مطلب ساڑھے تین لاکھ خاندان ہیں، جو اس وقت مسائل کا شکار ہیں کیونکہ ہمارے اپنے ملک میں آنکھوں کے عطیات انتہائی کم ہیں۔

اگر ہمارے ملک میں عطیات کا سلسلہ شروع ہوجائے تو یہ تعداد کم ہوسکتی ہے بلکہ سری لنکا کی طرح ختم بھی ہوسکتی ہے۔

ڈاکٹر قاضی واثق کا کہنا تھا کہ آنکھوں کا عطیہ بعد از مرگ ہوتا ہے، جس میں عوام کے اندر کئی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں، جن کے دور ہونے سے شاید لوگوں کے اندر آنکھوں کا عطیہ کرنے کا رحجان بڑھ جائے۔

چہرہ خراب نہیں ہوتا ہے

ڈاکٹر قاضی واثق کا کہنا تھا کہ سب سے پہلا معاملہ تو مذہب کا ہے مگر اب اسلامی نظریاتی کونسل نے بتا دیا ہے کہ آنکھیں عطیہ کرنا غیر اسلامی نہیں ہے بلکہ عین کار ثواب ہے، جو شخص اس دنیا سے چلے جانے والے شخص کی آنکھیں پا کر دیکھے گا، اس کے تمام نیک کاموں میں عطیہ کرنے والا حصہ دار رہے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ دوسری اہم بات یہ ہے کہ سب کو سمجھنا چاہیے کہ آنکھیں عطیہ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پوری کی پوری آنکھ نکال لی جاتی ہے۔

پوری آنکھ ہر گز نہیں نکالی جاتی ہے۔ چہرہ خراب نہیں ہوتا ہے بلکہ صرف آنکھوں میں سے کورنیا نکالا جاتا ہے، جس کو نہیں پتا کہ اس مردے نے آنکھیں عطیہ کردی ہیں اس کو سمجھ میں بھی نہیں آتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح جسم سے روح نکلنے کے آٹھ گھنٹے کے اندر اندر کورنیا کو حاصل کیا جانا ضروری ہوتا ہے، جس کے لیے کوئی بڑا آپریشن نہیں ہوتا۔

مردے کو ہسپتال لے کر جانے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے بلکہ اسی گھر کے اندر تھوڑی دیر کے لیے معمولی سے آپریشن سے کورنیا حاصل کرلیا جاتا ہے۔

مردہ جسم کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے، کوئی بے حرمتی نہیں کی جاتی ہے۔

ان کے مطابق اس سارے عمل میں پیسے اور لین دین کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا ہے۔ عطیہ وصول کرنے والے سے بھی کوئی پیسہ پائی نہیں لی جاتی ہے۔ آنکھیں عطیہ کرنے کے لیے زندگی ہی میں قانون کے مطابق وصیت کرنا لازم ہے۔

یہ بھی پڑھیے

آنکھیں کیسے عطیہ کی جاسکتی ہیں؟

ڈاکٹر قاضی واثق کے مطابق آنکھیں صرف بعد از مرگ ہی عطیہ کی جاسکتی ہیں۔ اس کے لیے قوانین کے مطابق عطیہ کرنے کی خواہش رکھنے والے کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی زندگی میں اپنے ہوش و حواس میں اس بات کی وصیت کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ یہ وصیت مختلف طریقوں سے بھی کرسکتا ہے۔ بہتر طریقہ یہ ہے کہ عطیہ کرنے کی خواہش رکھنے والے کسی آئی بینک یا پاکستان آئی بینک سوسائٹی سے وصیت کا کارڈ حاصل کرے۔ اس میں تمام تفصیلات فراہم کرے۔

اس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ گواہان میں وہ اپنے لواحقین اور ورثا کو شامل رکھے کیونکہ لواحقین اور ورثا کی اجازت کے بغیر بھی آنکھیں حاصل نہیں کی جاسکتی ہیں۔

ڈاکٹر قاضی واثق کے مطابق اس کارڈ میں عطیہ کرنے والے کی صحت کے حوالے سے بھی معلومات درکار ہوتی ہیں، جس سے پتا چلتا ہے کہ عطیہ کرنے والا کسی بیماری کا شکار تو نہیں تھا۔

ڈاکٹر قاضی کا کہنا تھا کہ اپنی زندگی میں عطیہ کرنے والے کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی میں خود بھی اپنے لواحقین اور ورثا کو باور کروا دے کہ اس کی موت کے بعد اس کی آنکھیں عطیہ کرنے کے عمل کا جلد از جلد آغاز کردیا جائے تاکہ آنکھیں جتنی جلدی حاصل ہوسکیں گیں اس کا اتنا ہی فائدہ ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ لوگ آنکھیں عطیہ کرنے کے بارے میں سوچیں اور فیصلہ کریں تاکہ ہم پاکستان کے اندر ہی آنکھوں کے عطیہ کے حوالے سے خود مختار ہوسکیں اور باہر کی دنیا کے محتاج نہ رہیں۔

ہر مذہب اور عقیدے کی تعلیمات کے مطابق ایک نہ ایک دن ہر ایک کی روح نے اس کے جسم سے نکلنا ہے۔ اب اگر جسم سے روح نکل جائے اور اس کے بعد کسی شہاب کی مسکراہٹ لوٹ آئے تو سوچیں یہ کتنا بڑا کام ہوگا۔