عاصمہ شیرازی کا کالم: پی ڈی ایم کا ٹھٹھرتا انقلاب

  • عاصمہ شیرازی
  • صحافی
احتجاج

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اُمید وہ شے ہے جو مرتے دم تک آنکھوں میں زندگی کی جوت جلاتی ہے، آس، یاس کا تضاد اور خواب زندگی کا دوسرا نام ہے۔ نظام ہو یا کاروبار حیات، مملکتوں کا وجود ہو یا زندگی کی کشمکش۔۔۔ سامان بہرحال اُمید ہی مہیا کرتی ہے۔

ہم شرمندہ ہیں، فلاں کے قاتل زندہ ہیں، ہم شرمسار ہیں، نہ جانے کس پستی کے شکار ہیں وغیرہ وغیرہ، یہ سب وہ جذباتی اظہار ہیں جو سانحہ سیالکوٹ جیسے ہر واقعے کے بعد سُننے کو ملتے ہیں۔

سلمان تاثیر کی کانپتی بے بس آواز آج بھی کانوں میں گونج رہی ہے کہ کس طرح وہ میڈیا سے شکوہ کُناں اور وضاحتیں دے رہے تھے کہ اُنھوں نے توہین مذہب نہیں کی۔

افسوس کس نے مانا کس نے دفاع کیا، قاتل نے دن دیہاڑے اسلام آباد جیسے شہر میں عدالت لگائی اور فیصلہ بندوق کی گولی نے سُنایا۔ وہ انتہاپسند معاشرے کا پہلا نشانہ تھے اور یوں پھر یہ سلسلہ چل نکلا۔

کبھی مسیحی جوڑا تو کبھی کوئی اور، اور اب سر لنکن شہری جس کا قصور کیا تھا تاحال معلوم نہیں۔ فیصلہ کس نے کرنا تھا، انصاف کا ترازو ہجوم کے ہاتھ اور منصف درجنوں بے شناخت شہری۔

جب ریاست لاپتہ ہو جائے، آئین اغوا ہو جائے، قوم ہجوم بن جائے، طاقت ور بہرے، منصف اندھے اور دانشور گونگے ہو جائیں تو معاشرے مردہ اور روایتیں دفن ہو جاتیں ہیں۔

فیکٹری

،تصویر کا ذریعہGetty Images

جو کچھ سیالکوٹ میں ہوا، اس کا سبب کیا ہے؟ آئین کی عملداری کا نہ ہونا، نمائندہ حکومت کی عدم موجودگی یا جمہوری رویوں کا فقدان۔۔۔ یہ سب عوامل غیر سیاسی معاشرے کو جنم دیتے ہیں جہاں طاقت ور اشرافیہ اپنی بقا کے لیے غیر سیاسی اور غیر عوامی گروہوں کا سہارا لیتی ہے۔

یہ غیر سیاسی طاقت کے چھوٹے چھوٹے مراکز بڑی بڑی مصلحتوں کو جنم دیتے ہیں اور یوں ریاست ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتی ہے۔ کمزور ریاست اور ناہموار معاشی نظام طبقاتی اور معاشرتی تفریق: یہ احساس محرومی، غم اور غصے کا سبب بنتے ہیں جبکہ چھوٹے واقعات بڑے سانحوں کا پتہ دیتے ہیں اور بے خبری المیہ بن جاتی ہے۔

سیالکوٹ میں مذہبی انتہاپسندی کا مظاہرہ تو ہوا ہی مگر سہارا معاشرتی ناہمواری نے بھی دیا۔ مذہبی جنونیت کا لبادہ اوڑھے بھوک، افلاس اور عدم انصاف بھی موت کی صورت رقصاں، وحشت ہر طرف ہر سُو اور ریاست کے آسیب زدہ، بوسیدہ کھڑکتے کواڑ۔۔۔ بقول شاعر "چھالے کی طرح صحرا میں مرا خاکستری گھروندا" ویرانہ بن رہا تھا۔

سیاسی جماعتیں اپنی بُنت میں، عسکری اشرافیہ اپنے مفاد کے لئے سرگرداں، حکمران سیاسی چالوں میں مصروف، عوام کے پاس مایوسی کے سوا کیا ہے۔

اپوزیشن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

یہ سب چل ہی رہا تھا کہ پی ڈی ایم کے ’اہم اجلاس‘ اور نتیجے میں تین ماہ بعد انقلاب کی خبروں نے عوام کی رہی سہی امیدوں پر بھی برف ڈال دی۔ سردی کے موسم میں ٹھٹھرتے انقلاب کی خاطر بہار کے موسم کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ بھلا سیاسی جماعتیں نا ہوئیں سہ ماہی ڈرامے کی قسطیں ہو گئیں، عوامی ایجنڈا نئے سیزن کا ٹیزر اور انقلاب کی اگلی قسط کے منتظر عوام۔۔

پی ڈی ایم غیر واضح اور تضادات لیے عوام کے سامنے ہے۔ ن لیگ کی قیادت لندن میں اور باقی قیادت پاکستان میں خوبصورت ’سیاسی موسم‘ کی منتظر ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ن لیگ یا تو کسی ڈیل یا کسی ڈھیل کے باعث اس حکومت کو پورے پانچ سال دینا چاہتی ہے جبکہ موجودہ کانپتا سیاسی نظام کسی سہارے کا منتظر ہے۔

عاصمہ شیرازی کے دیگر کالم پڑھیے

فوری انتخاب کا مطالبہ کرنے والی سیاسی جماعت اب حیلے بہانوں سے پانچ سال ختم ہونے کے انتظار میں ہے۔ میاں نواز شریف اپنے اور مریم نواز کے "عدالتی انصاف" تک انقلاب موخر کرنا چاہتے ہیں جبکہ اُن کی جماعت کے چند زعماء پارٹی میں "خاندانی عہدوں" سے متعلق شیر و شکر فیصلوں پر بھی زور دے رہے ہیں تاکہ اختلافات ختم ہوں اور جماعت کو کم از کم ایک سمت مل سکے۔

پی ڈی ایم کے حالیہ فیصلوں نے انقلاب کو تو سرد موسم میں ڈالا ہی ہے مگر پی ڈی ایم کے مستقبل پر بھی اوس ڈال دی ہے۔ پی ڈی ایم کے ٹھٹھرتے انقلاب کے سیزن میں چار ماہ باقی ہیں، عوام انتظار فرمائیں۔