• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پہلے تین باتیں

پہلی بات :سانحہ سیالکوٹ پر جو لکھنا چاہتا ہوں، لکھ نہیں سکتا۔

دوسری بات :چودھری فواد کہتے ہیں ’’ہم نے ٹائم بم لگا دیئے، انہیں ناکارہ نہ کیا تو وہ پھٹیں گے‘‘..... برادر محترم چودھری فواد !پھٹیں’’گے‘‘ نہیں، پھٹنا شروع ہو چکے ہیں ۔CHAIN REACTION کا انتظار فرمائیے ۔

تیسری بات 3:دسمبر 2021ء میرے کالم کے اختتامی جملے یہ تھے ۔

’’ہم ریلیکسڈ نہیں ٹینس ترین ہجوم ہیں جس میں سانپ سرسرا رہے ہیں۔ ہم نارمل نہیں ابنارمل معاشرہ ہیں جس کے مستقبل کے آگے سوالیہ نشان آبادی کی طرح بڑھتے جا رہے ہیں ‘‘

یہ حقیقت ریکارڈ پر موجود ہے کہ گزشتہ 30سال سے میں مختلف طریقوں سے اسی شرمناک دردناک صورتحال کو لفظوں کے ذریعہ سکیچ کرتا رہا ہوں۔ اس ملک میں نظام کی آدم خوریت، جہالت اور کرپشن پر پے درپے جتنا اور جس جس طرح میں نے ماتم کیا، کسی اور نے نہیں ۔

’’لکھا تھا دیوار چمن پہ ’’پھول نہ توڑو‘‘

لیکن تیز ہوا اندھی تھی ‘‘

اب یہ ہوا آندھی میں تبدیل ہو چکی ہے جبکہ میں نے تو یہاں تک بھی کہا اور لکھا تھا کہ ’’تیز ہوا میں توڑی یعنی بھوسے کی گٹھڑی کھل جائے تو کوئی افلاطون یا ٹارزن بھی اسے سمیٹ نہیں سکتا‘‘۔ یہ پنڈ کھل چکی یا یوں کہہ لیجئے کہ پنڈوراز بوکس کھل چکا ۔ جان برادر عطاالحق قاسمی نے لکھا ’’کمال اتاترک کو آواز نہ دیں !‘‘کوئی پریشان نہ ہو کیونکہ اتاترک صرف ترکوں میں پیدا ہوتے ہیں، ہم جیسوں میں ہرگز نہیں ۔

قارئین ! اب چلتے ہیں اصلی کالم کی طرف۔ انگریزی زبان کا گھسا پٹا محاورہ سا ہے۔

"YOU LIVE BY THE SWORD, YOU DIE BY THE SWORD"

میرے ساتھ یہی کچھ ہوتے ہوتے رہ گیا۔ میں نے زندگی کتابوں کے ساتھ کتابوں کے درمیان ہی گزاری ہے اور چند روز پہلے کتابوں کے نیچے آکر مرتے مرتے بچا ہوں ۔ میری زیادہ تر لائبریری تو ’’بیلی پور‘‘ والے گھر میں ہے لیکن شہر والے گھر کی سٹڈی بھی ٹھیک ٹھاک ہے ۔میرے وہم وگمان میںبھی نہیں تھا کہ مہنگی ترین وڈ کرافٹ کمپنی کا کام بھی دو نمبر ہی نکلے گا ۔4،5 سال میں اس کی لکڑی دیمک کا شکار ہو گی تو دوسری طرف وہ آرکیٹکٹ جسے پروموٹ کرنے کیلئے میں نے گھر کا پراجیکٹ دیا تھا، پائپنگ میں جھک مار گیا ۔ پانی دھیرے دھیرے رستا رہا یعنی دیمک اور نمی نے مل کر کام دکھایا ۔ پہلے مجھے کتابوں کی الماریوں میں ٹیڑھا پن سا محسو س ہوا تو میرے بہت ہی عزیز دوست امیر افضل نے کہا ’’فوراً چیک کرائو اور یہاں بیٹھنا فی الحال ترک کر دو ورنہ یہ نہ ہو کہ ان بھاری بھر کم الماریوں اور کتابوں کے نیچے آکر گردن کا منکا تڑوا بیٹھو‘‘ پھر جب ’’ماہرین‘‘ سے چیک کرایا تو عین میرے پیچھے والی الماری کتابوں سمیت ریت کی دیوار کی طرح سلوموشن میں ڈھیتی چلی گئی اور اب کچھ دنوں سے میرا بیسمنٹ بھوت بنگلہ بنا ہوا ہے، کام کا شور اپنی جگہ تو دوسری طرف ’’پائوڈر ڈسٹ‘‘ کے بادل، کالم بیڈروم میں بیٹھ کر لکھتا ہوں ، ریکارڈنگز کیلئے ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھنا پڑتا ہے، اوپر سے خبر یہ آئی کہ انتظامیہ نے ’’میرے مطابق ‘‘ کا دورانیہ بڑھا کر اس کا ٹائم بھی تبدیل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

بظاہر اس ذاتی مسئلہ میں جو بات میں آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ کہ اس طرح کے کاموں میں صلۂ رحمی میں بھی میرٹ کو ترجیح دیں جس میں ’’تجربہ‘‘ سرفہرست ہونا چاہئے ۔نامور آرکیٹکٹس سے شناسائی ہے لیکن میں ایک نوجوان آرکیٹکٹ کے اس جملے سے مار کھا گیا ’’حسن انکل! لوگ میری ڈگری نہیں عمر دیکھتے ہیں اور کام دیتے ہوئے گھبراتے ہیں ‘‘ شام تک یوں بھی میرے موڈ مزاج میں نرمی عروج پر ہوتی ہے سو 7بیڈروم گھر کا پراجیکٹ ارتضیٰ کے حوالے کر دیا ۔سب کچھ شاندار رہا لیکن بیسمنٹ میں بچہ مار کھا گیا۔ رہی سہی کسر لکڑی کا کام کرنے والوں نے پوری کر دی ۔ خوامخواہ کا لمبا چوڑا خرچہ اپنی جگہ اور خجل خواری نے مت مار رکھی ہے ۔سارا دن ٹھک ٹھک، شور شرابا، مستری مزدور آجا رہے ہیں اور یہ خاکسار مٹی کے مادھو کی طرح بے بس بیٹھا ہے ۔ بڑے بیٹے حاتم کو سمجھایا کہ زندگی میں صرف ٹیلنٹ ہی نہیں تجربہ بھی بہت اہم ہوتا ہے اور ایسے فیصلے میں جذباتی نہیں ہونا چاہئے ۔ارتضیٰ میں ٹیلنٹ تو بہت تھا لیکن تجربے سے مار کھا گیا جس کی قیمت مجھے کئی رنگ میں ادا کرنا پڑ رہی ہے ۔

میرا بھی کوئی نفسیاتی مسئلہ ہے کہ اپنے مخصوص ماحول کے علاوہ لکھنا، پڑھنا کیا سوچنا بھی محال ہو جاتا ہے جس میں ایج فیکٹر بھی یقیناً بہت سے گل کھلا رہا ہے ورنہ ایک زمانہ تھا میں شورشرابے میں بھی مکمل یکسوئی کے ساتھ لکھ لیتا تھا ۔ویگس کے مشہور زمانہ جوا خانوں میں بیٹھ کر بھی کالم لکھ لیتا تھا تو یہ وضاحت بھی کرتا چلوں کہ ذاتی طور پر جوا تو کیا، مجھے تو تاش کے پتوں کی بھی پہچان نہیں اور نہ ہی اس کام سے رتی برابر دلچسپی ہے ۔دوست شرارتاً مہم جوئی کرتے اور میں بھیڑ میں تنہا بیٹھ کر کالم لکھتا رہتا لیکن اب مخصوص ماحول اور مکمل تنہائی کی ضرورت ہوتی ہے ۔زیادہ سے زیادہ بیسمنٹ کے ’’سنک ان‘‘ میں موجود کبوتروں کی غٹرغوں ہی سن سکتا ہوں لیکن یہاں تو ہتھوڑے چھینیاں ہیں کہ رکنے کا نام ہی نہیں لیتیں۔اللہ کرے چند دنوں میں اس چخ چخ سے نجات مل جائے اور شب وروز معمول کی طرف لوٹ سکیں۔

میں وہ آدم گزیدہ ہوں جو تنہائی کے صحرا میں

خود اپنی چاپ سن کر لرزہ براندام ہو جائے

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین