کالعدم تحریک لبیک پاکستان کا اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا اعلان، متعدد سڑکیں ٹریفک کے لیے بند

ٹریفک

،تصویر کا ذریعہAhmad Shahzad

کالعدم مذہبی و سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) نے (آج) جمعے کے روز بعد از نمازِ جمعہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا اعلان کر رکھا ہے جس کے باعث مختلف شہروں میں سکیورٹی کے انتظامات سخت کر دیے گئے ہیں۔

جمعے کے روز صبح سے ہی اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر واقعہ فیض آباد چوک اور راولپنڈی سٹیڈیم روڈ کو ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ راولپنڈی کی مرکزی شاہراہ مری روڈ کو بھی متعدد جگہوں سے ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا ہے، جس سے دونوں شہروں میں عام لوگوں کو مشکلات پیش آ رہی ہیں۔

ترجمان تحریک لبیک کے مطابق ان کی جماعت اور کارکن بعد از نماز جمعہ اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا آغاز کریں گے۔ تنظیم کی مرکزی شوریٰ کہہ چکی ہے کہ اگر مارچ روکنے کی کوشش کی گئی تو ‘ہمارے پاس پلان بی بھی موجود ہے۔‘

تحریکِ لبیک کے اہم مطالبات میں تنظیم کے رہنما سعد رضوی کی رہائی اور فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے حوالے سے حکومت اور تحریکِ لبیک پاکستان کے درمیان کیے گئے معاہدے پر عملدرآمد ہے۔

ٹریفک

،تصویر کا ذریعہAhmad Shahzad

ٹی ایل پی کی لانگ مارچ سے قبل حکام کی جانب سے موٹروے ایم ٹو پر لاہور کے قریب بابو صابو انٹرچینج کو بند رکھا گیا ہے، جبکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے داخلی راستوں اور مرکزی شاہراہوں کو جزوی یا مکمل طور پر بند کرنے کے لیے کنٹینرز لگائے گئے ہیں۔

بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق اس وقت مری روڈ اور فیض آباد ٹریفک کے لیے بند ہیں جبکہ اسلام آباد ایکسپریس وے پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئی ہیں۔ ان کے مطابق سٹیڈیم روڈ کو بھی دونوں جانب ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔

اسلام آباد ایکسپرس ہائی وے

،تصویر کا ذریعہAhmad Shahzad

،تصویر کا کیپشناسلام آباد ایکسپرس ہائی وے

یاد رہے کہ صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں کالعدم تحریک لبیک کے کارکن دھرنے پر بیٹھے ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ وفاقی حکومت ان کی جماعت کے ساتھ چند ماہ پہلے کیے گئے معاہدے پر عملدرآمد کرے۔

اس معاہدے میں بنیادی نکتہ پاکستان سے فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے حوالے سے اقدامات کیے جانے سے متعلق ہے۔

لاہور پولیس کے سربراہ غلام محمود ڈوگر نے کہا ہے کہ شہر کا امن و امان کسی صورت متاثر نہ ہونے دیا جائے گا۔

نامہ نگار عمر دراز ننگیانہ کے مطابق اس وقت تحریک لبیک پاکستان کے کارکنان کی جانب سے احتجاجی دھرنا لاہور کی ملتان روڈ پر بدستور جاری ہے اور پولیس نے چوراہے کو دونوں اطراف سے ٹریفک کے لیے بند کر رکھا ہے۔

ایک پولیس اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ دھرنے کے مقام پر مظاہرین نے دو آئل ٹینکر کھڑے کر رکھے ہیں جن میں پیٹرول موجود ہے تاہم تاحال مظاہرین پُرامن رہے ہیں۔ اہلکار کے مطابق آئل ٹینکر قریب واقع پیٹرول پمپ سے لا کر کھڑے کیے گئے تھے۔

دوسری جانب وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کا کہنا ہے کہ اگر کالعدم تحریک لبیک کے مطالبے پر پاکستان سے فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کیا گیا تو پاکستان کے یورپی ممالک سے تعلقات کشیدہ ہو جائیں گے۔

جمعرات کو اسلام آباد میں پولیس کی پاسنگ آؤٹ تقریب کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے شیخ رشید کا کہنا تھا کہ فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے یورپی ممالک سے تعلقات متاثر ہوں گے جس کا ملک کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔

یاد رہے کہ تحریک کا اپریل میں ہونے والے احتجاجی مظاہرہ پاکستان کی قومی اسمبلی کی جانب سے کالعدم مذہبی جماعت تحریکِ لبیک پاکستان کے مطالبے پر فرانس کے سفیر کی ملک بدری پر بحث کے لیے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دینے کے فیصلے کے بعد ختم کیا گیا تھا۔

تحریک لبیک پاکستان

،تصویر کا ذریعہAhmad Shahzad

انٹیلیجنس رپورٹس کی بنیاد پر گرفتاریاں

جمعرات کی شب لاہور اور راولپنڈی میں پولیس نے تحریک لبیک کے درجنوں کارکنوں کو حراست میں بھی لیا تھا۔ لاہور پولیس کے مطابق گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ہونے والی مختلف کارروائیوں میں پولیس نے تحریک لبیک پاکستان کے 20 سے 25 کارکنان اور رہنماؤں کو گرفتار کیا ہے تاہم دھرنے کے مقام پر موجود مظاہرین میں سے تاحال کسی کو گرفتار کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔

دوسری جانب راولپنڈی پولیس نے بھی رات گئے شہر کے مختلف علاقوں میں چھاپے مار کر کالعدم تنظیم تحریک لبیک پاکستان کے دو درجن سے زائد کارکنوں کو حراست میں لے لیا ہے۔ نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق پولیس کا کہنا ہے کہ ان افراد کو خدشہ نقص امن کے تحت حراست میں لیا گیا ہے۔

حکام کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے کالعدم تنظیم کے کارکنوں پر چھاپوں کا سلسلہ خفیہ اداروں کی رپورٹس روشنی میں کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ تحریک لبیک پاکستان کے متحرک کارکن لاہور میں دھرنا دینے کے بعد اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم میں واقع فیض آباد پر دھرنا دینے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔

راولپنڈی پولیس کے ایک اہلکار کے مطابق جب سے قانون نافد کرنے والے اداروں نے چھاپوں کا سلسلہ شروع کیا ہے اس کے بعد سے متعدد کارکن انڈر گراونڈ چلے گئے ہیں۔

اس سے قبل منگل کو کالعدم تحریک لبیک نے لاہور میں عید میلاد النبی کے موقعے پر اپنے مرکزی جلسے کو ’پرامن احتجاجی دھرنے‘ میں تبدیل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ ماضی میں تحریک لبیک کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر عملدرآمد یقینی بنائے۔

احتجاجی دھرنے کے شرکا کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان کی جانب سے تحریک لبیک کے ساتھ معاہدے سے بار بار ’روگردانی‘ کی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’تین دن میں معاہدے پر عملدرآمد کا کہا گیا تھا جبکہ اب چھ ماہ گزر گئے لیکن معاہدے کی ایک شق پر بھی عمل نہیں کیا گیا۔‘

لاہور

،تصویر کا ذریعہGetty Images

لاہور میں ٹرین سٹیشن پر ٹی ایل پی کا دھاوا

دوسری جانب لاہور پولیس نے اورنج لائن ٹرین سروس کی انتظامیہ کی درخواست پر تحریک لبیک کے اعلیٰ عہدیدران سمیت نامعلوم افراد کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ سمیت ڈکیتی، اقدام قتل، دنگا فساد، دھمکیاں دینے اور غیرقانونی ہتھیار رکھنے کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔

مقدمے کی ایف آئی آر کالعدم تحریک لبیک کے سرپرست اعلیٰ پیر قاضی محمود اعوان، مرکزی ناظم مالیات پیر محمد قاسم، امیر جنوبی پنجاب پیر سرور شاہ سیفی، امیر ہزارہ مفتی عمیر الظاہری، ناظم شمالی پنجاب مولانا غلام عباس سیفی، امیر بلوچستان مفتی وزیر قادری اور لاہور ڈویژن کے مفتی عابد رضا قادری کے خلاف درج کی گئی ہے۔

ایف آئی آر کے مطابق اورنج لائن کے ایک سٹیشن منیجر نے پولیس کو اطلاع دی کہ چالیس سے پچاس نامعلوم مسلح افراد نے سٹیشن پر دھاوا بولا، عملے پر پیٹرول چھڑکا، جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں، قیمتی اشیا لوٹیں اور اسلحے کی نمائش کی۔

لاہور

،تصویر کا ذریعہGetty Images

تاہم اس احتجاجی دھرنے کے حوالے سے سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں اور پوچھا جا رہا ہے کہ آیا یہ دھرنا واقعی معاہدے کی پاسداری ہے یا پسِ پردہ جماعت کے سربراہ سعد رضوی کی رہائی کے لیے کیا جا رہا ہے؟

’اصل مطالبہ تحریک لبیک کے سربراہ سعد رضوی کی رہائی ہے‘

تجزیہ نگار افتخار احمد کا کہنا تھا کہ 'بڑے عرصے کے بعد تحریک لبیک پاکستان کے کارکنوں کو اکٹھے ہونے کا موقع ملا ہے اور پیغمبر اسلام کی پیدائش کے دن کو لے کر جلسہ کیا گیا ہے، اس جلسے کو بعدازاں دھرنے میں بدلا گیا اور اب وہ اس موقع کو جانے نہیں دیں گے۔‘

نامہ نگار شہزاد ملک سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’لاہور میں تحریک لبیک کے مظاہرین اگرچہ یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ حکومت فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرے لیکن جماعت کے قائدین کا اصل مقصد تحریک لبیک کے سربراہ سعد رضوی کی رہائی ہی ہو گا۔

انھوں نے کہا کہ ’کسی بھی شحص کو نظربند رکھنے کی ایک مدت ہوتی ہے لیکن اس معاملے میں لگتا ہے کہ ریاست ابہام کا شکار ہے کیونکہ پہلے یہ معاملہ لاہور ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ آیا اور اس کے بعد سپریم کورٹ نے یہ معاملہ دوبارہ لاہور ہائی کورٹ میں بھیج دیا گیا ہے۔‘

افتخار احمد کا کہنا تھا کہ ’ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تحریک لبیک کے کارکن سعد رضوی کی رہائی تک دھرنا ختم نہیں کریں گے۔‘

یہ بھی پڑھیے

انھوں نے کہا کہ ’اگر حکومت اس دھرنے کو ختم کروانے کے لیے طاقت کا استعمال کرتی ہے تو اس سے حالات مزید خراب ہوں گے۔ ماضی قریب میں تحریک لبیک کے کارکنوں نے لاہور میں جو دھرنا دیا تھا اس کی وجہ سے صوبائی دارالحکومت میں تین دن تک زندگی مکمل طور پر مفلوج ہو کر رہ گئی تھی۔‘

تحریک لبیک پاکستان، یتیم خانہ چوک

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنرواں سال اپریل کے دوران لاہور کے یتیم خانہ چوک پر ٹی ایل پی کارکنان اور پولیس اہلکاروں کے درمیان پرتشدد کارروائیوں میں کئی افراد ہلاک اور زخمی ہوئے تھے

افتخار احمد نے کہا کہ گذشتہ چند مہینوں کے دوران ملک میں جتنے بھی ضمنی انتخابات ہوئے ہیں ان میں تحریک لبیک نے حصہ لے کر اپنی موجودگی کا ثبوت دیا ہے اور حکومت کے پاس علامہ سعد رضوی کی نطربندی ختم کرنے کے علاوہ بظاہر اب اور کوئی راستہ نہیں ہے۔

’اجتماع کی دھرنے میں تبدیلی پنجاب اور وفاقی حکومت کے نئی مشکل‘

سیاسی تجزیہ کار مظہر عباس نے بی بی سی کے عماد خالق سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ٹی ایل پی کا اجتماع دھرنے میں بدل جانا پنجاب اور وفاقی حکومت کے لیے ایک نئی مشکل پیدا کر سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’جیسا کہ ٹی ایل پی فرانسیسی سفیر کے حوالے سے اپریل میں ہوئے معاہدے پر عملدرآمد کا مطالبہ کر رہے ہیں، ایسے میں ایک جانب ان کی لیڈر سعد رضوی کی رہائی کا معاملہ اور اس پر پنجاب حکومت کا سپریم کورٹ سے رجوع کرنا ان مشکلات میں اضافہ کر سکتا ہے۔‘

مظہر عباس کا کہنا تھا حکومت نے ٹی ایل پی سے فرانسیسی سفیر کے حوالے سے جو معاہدہ کیا تھا اس پر حکومت کو اب جواب دینا ہے۔

’حکومت اس دوران اس معاہدے پر کوئی اقدامات کرتی نظر نہیں آئی بلکہ اس کے بعد صورتحال میں ٹی ایل پی کے خلاف کچھ کارروائیاں بھی کی گئیں جن میں سعد رضوی کی گرفتاری اور ان کے رہائی کے احکامات کو چیلنج کرنا بھی شامل ہے۔

مظہر عباس کے مطابق ’میرے خیال میں حکومت سعد رضوی کی رہائی کے معاملے پر اکتفا کرے گی کیونکہ فرانسیسی سفیر کے حوالے سے اقدامات اٹھانا مشکل دکھائی دیتے ہیں۔‘

کیا موجودہ سیاسی صورتحال میں یہ وفاقی حکومت پر ایک دباؤ ڈالنے کی کوشش ہے اس پر مظہر عباس کا کہنا تھا کہ ’ملکی سیاسی تاریخ اس قسم کے پریشر ڈالنے کے حربوں سے بھری پڑی ہے لیکن فی الحال اس بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا۔‘

’دھرنا طویل ہو گیا تو نتائج خوفناک ہو سکتے ہیں‘

سیاسی تجزیہ کار ایاز خان کا کہنا تھا کہ بظاہر ٹی ایل پی کے دھرنے کا مقصد سعد رضوی کی رہائی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر یہ دھرنا طوالت اختیار کر گیا تو اس کے نتائج خوفناک ہو سکتے ہیں۔‘

انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ٹی ایل پی کی جانب سے سامنے آنے والے مطالبات میں فرانسیسی سفیر سے متعلق معاہدہ پر عملدرآمد کا کہا گیا ہے مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کا اصل مقصد حکومت پر اپنے لیڈر کی رہائی کے لیے دباؤ بڑھانا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’حکومت اور پنجاب پولیس کے ماضی کے ریکارڈ کو سامنے رکھتے ہوئے اگر یہ دھرنا طوالت اختیار کر گیا تو وفاقی و صوبائی حکومت اس سے مشکل میں پڑ سکتی ہے۔‘

سعد رضوی کی نظر بندی

حال ہی میں لاہور ہائی کورٹ نے تحریک لبیک کے سربراہ حافظ سعد رضوی کے چچا کی درخواست پر ان کی نظر بندی کا نوٹیفیکیشن کالعدم قرار دیا گیا تاہم پنجاب حکومت نے سعد رضوی کی رہائی کے عدالتی فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا تھا۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے سعد رضوی کو رہا کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے اس میں قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔

پنجاب حکومت کا مؤقف ہے کہ عدالتِ عالیہ کو اس کیس سے متعلق تفصیلی ریکارڈ بھی فراہم کیا گیا تھا اور یہ کہ سعد رضوی کی نظربندی کا حکومتی فیصلہ قانونی طور پر درست ہے۔

ٹی ایل پی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

صوبائی حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی کہ سعد رضوی کی رہائی کے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے۔

تاہم سپریم کورٹ نے اس معاملے پر ابتدائی سماعت کے بعد یہ معاملہ دوبارہ لاہور ہائیکورٹ کو ریفر کر دیا ہے۔

‎یاد رہے کہ اپنے والد خادم رضوی کی وفات کے بعد مذہبی جماعت ٹی ایل پی کے سربراہ مقرر ہونے والے سعد رضوی کو پہلے وفاقی حکومت کے احکامات پر ایم پی او (نقص امن عامہ) کے قانون کے تحت نظر بند کیا گیا تھا اور ساتھ ہی انھیں انسدادِ دہشت گردی کے قانون کی دفعہ 11 ٹرپل ای کے تحت بھی جیل میں رکھا گیا تھا۔

سعد رضوی کی گرفتاری کا پس منظر

‎ٹی ایل پی کے سربراہ سعد رضوی کو رواں برس اپریل میں لاہور سے گرفتار کیا گیا تھا۔

پیغمبرِ اسلام کے گستاخانہ خاکوں کے معاملے پر فرانسیسی سفیر کو 20 اپریل تک ملک بدر نہ کیے جانے کی صورت میں اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کی دھمکی دینے والے تحریکِ لبیک کے امیر سعد رضوی کو اپریل کے وسط میں لاہور پولیس نے حراست میں لیا تھا۔

سعد رضوی پر الزام تھا کہ انھوں نے اپنی جماعت کے کارکنان کو حکومت کے خلاف مظاہروں پر اکسایا جس کے دوران پرتشدد کارروائیوں میں کئی افراد ہلاک اور زخمی ہوئے تھے۔

سعد رضوی کی گرفتاری کے بعد تحریکِ لبیک کی جانب سے ملک کے متعدد شہروں میں پرتشدد احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔

اس احتجاج کے دوران کم از کم چار پولیس اہلکار ہلاک جبکہ سینکڑوں اہلکار اور کارکن زخمی ہوئے تھے۔

حکومت نے 16 نومبر 2020 کو اسلام آباد میں فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے مطالبے کے ساتھ دھرنا دینے والی تحریک لبیک پاکستان کے سابق سربراہ خادم حسین رضوی سے چار نکاتی معاہدہ کیا تھا جس کے تحت حکومت کو دو سے تین ماہ کے اندر پارلیمان سے قانون سازی کے بعد فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنا تھا۔

اس معاہدے پر عمل نہ ہونے کے بعد فروری 2021 میں مذکورہ جماعت اور حکومت کے درمیان ایک اور معاہدہ ہوا جس کے تحت حکومت کو 20 اپریل تک فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے وعدے پر عمل کرنے کی مہلت دی گئی تھی۔

اس کے بعد تنظیم نے 20 اپریل تک فرانس کے سفیر کی ملک بدری نہ ہونے کی صورت میں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم 12 اپریل کو احتجاج کا حالیہ سلسلہ تنظیم کے سربراہ سعد رضوی کی گرفتاری کے بعد شروع ہوا تھا۔

سعد رضوی

،تصویر کا ذریعہTLP

سعد رضوی کون ہیں؟

خادم رضوی کی وفات کے بعد ان کی جماعت کی 18 رکنی شوریٰ نے گذشتہ برس ان کے بیٹے سعد رضوی کو تحریک لبیک کا نیا سربراہ مقرر کیا جس کا اعلان جماعت کے مرکزی نائب امیر سید ظہیر الحسن شاہ نے جنازے کے موقع پر کیا تھا۔

لاہور میں خادم رضوی کے جنازے کے موقع پر ان کے بیٹے سعد رضوی نے خطاب میں اپنے والد کا مشن جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا تھا۔

سعد رضوی لاہور میں اپنے والد کے مدرسہ جامعہ ابوذر غفاری میں درس نظامی کے طالبعلم رہے۔ درس نظامی ایم اے کے برابر مدرسے کی تعلیم کو کہا جاتا ہے۔

ان کے قریبی دوستوں کے مطابق سعد کا کالجز اور یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات سے گہرا رابطہ ہے۔

وہ شاعری سے خصوصی شغف رکھتے ہیں اور سب سے اہم یہ کہ وہ جدید دور میں سوشل میڈیا کی اہمیت سے بھی خوب واقف ہیں اور فیس بک اور ٹوئٹر پر اپنے ذاتی اکاؤنٹس چلاتے ہیں۔