نیوزی لینڈ کے فیصلے سے پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ پر کیا اثرات ہو سکتے ہیں؟

  • عبدالرشید شکور
  • بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
پاکستانی شائقین

،تصویر کا ذریعہAnadolu Agency

،تصویر کا کیپشن

میچ منسوخ ہونے کے بعد شائیقن اپنی ٹکٹوں کے ہمراہ مایوس نظر آ رہے ہیں

نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کا دورۂ پاکستان ختم کر کے وطن واپس جانے کا فیصلہ جہاں پاکستان کرکٹ بورڈ اور پاکستانی شائقین کے لیے مایوسی کا سبب بنا ہے وہیں اس نے کئی سوالات کو بھی جنم دیا ہے جن میں سرفہرست پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کا مستقبل ہے۔

نیوزی لینڈ کرکٹ بورڈ کا کہنا ہے کہ اس نے پاکستان میں سکیورٹی خدشات کی وجہ سے دورہ ختم کرنے کا اعلان کیا ہے اور اس نے یہ قدم اپنی حکومت کی اجازت سے اٹھایا ہے۔

دوسری جانب پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین رمیز راجہ کا اس بارے میں سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔

رمیز راجہ نے اپنے ٹویٹ میں کہا ہے کہ انھیں اپنے کھلاڑیوں اور شائقین سے ہمدردی ہے۔ ’یہ بات اس لیے بھی مایوس کن ہے کہ نیوزی لینڈ نے سکیورٹی دھمکی کو بنیاد بناکر دورہ ختم کرنے کا یکطرفہ فیصلہ کیا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے ہم سے کوئی چیز شیئر نہیں کی۔‘

رمیز راجہ کے ٹویٹ کے آخری چند الفاظ بہت اہم ہیں جن میں انھوں نے نیوزی لینڈ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’نیوزی لینڈ کس دنیا میں رہ رہا ہے؟ نیوزی لینڈ ہمیں اب آئی سی سی میں سنے گا‘۔

رمیز راجہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

رمیز راجہ کے لہجے سے یہ بات عیاں ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ اس معاملے کو آئی سی سی میں اٹھائے گا

رمیز راجہ کے ان الفاظ سے یہ بات عیاں ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ اس معاملے کو آئی سی سی میں اٹھائے گا۔

یہ بات کہنا قبل از وقت ہوگی کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نیوزی لینڈ کی ٹیم کے دورے کی منسوخی کے سبب ہونے والے مالی نقصان کے ازالے کے لیے آئی سی سی کی تنازعات سے متعلق کمیٹی سے رجوع کرے گا لیکن یہ ضرور معلوم ہوا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ منسوخ شدہ دورے کے میچز کو دوبارہ پاکستان میں منعقد کرانا چاہتا ہے۔

یہاں یہ بات بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کو آئندہ سال دوبارہ پاکستان کا دورہ کرنا ہے جس میں اسے تین ون ڈے انٹرنیشنل اور دو ٹیسٹ کھیلنے ہیں۔ یہ ون ڈے انٹرنیشنل میچز آئی سی سی سپر لیگ کا حصہ ہوں گے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کی یہ کوشش ہوگی کہ وہ موجودہ دورے کی منسوخی کے نتیجے میں متاثر ہونے والے میچز آئندہ سال نیوزی لینڈ ٹیم کے پاکستان کے دورے میں ایڈجسٹ کروا کر انھیں ممکن بنائے۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ اس نے میچ میں فول پروف سکیورٹی کا انتظام کیا تھا

،تصویر کا ذریعہEPA

،تصویر کا کیپشن

پاکستان کا کہنا ہے کہ اس نے میچ میں فول پروف سکیورٹی کا انتظام کیا تھا

نیوزی لینڈ کی ٹیم کے دورۂ پاکستان کو سکیورٹی خدشات کی بنیاد پر منسوخ کیے جانے کے معاملے کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ نیوزی لینڈ کی ٹیم کے پاکستان پہنچنے سے پہلے کرکٹ کی دنیا کے سب سے معروف سکیورٹی ماہر ریگ ڈیکا سن نے پاکستان آکر اس دورے میں سکیورٹی سے متعلق تمام انتظامات اور اقدامات کا خود جائزہ لیا تھا اور ان پر مکمل اطمینان ظاہر کیا تھا۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ ریگ ڈیکا سن نہ صرف نیوزی لینڈ بلکہ آئندہ ماہ پاکستان کے دورے پر آنے والی انگلینڈ کی ٹیم کے بھی سکیورٹی کنسلٹنٹ ہیں۔

انگلینڈ کی ٹیم کے دورہ پاکستان پر سوالیہ نشان

انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم دو ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچز کھیلنے آئندہ ماہ پاکستان آنے والی ہے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کے حکام جمعے کے روز نیوزی لینڈ ٹیم کے دورہ کی منسوخی کے سلسلے میں اس کے کرکٹ بورڈ کے ساتھ مصروف رہے لیکن اطلاعات یہ ہیں کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر وسیم خان انگلینڈ اینڈ کرکٹ بورڈ کے حکام سے رابطہ کرنے والے ہیں کیونکہ انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں اس نے کہا ہے کہ وہ پاکستان میں اپنی سکیورٹی ٹیم سے رابطے میں ہے اور وہ چوبیس سے اڑتالیس گھنٹے میں یہ فیصلہ کرے گا کہ ان کا طے شدہ دورہ ہونا چاہیے یا نہیں؟

پاکستان کے خلاف کھیل کھیلا جارہا ہے؟

میچ سکیورٹی

،تصویر کا ذریعہEPA

،تصویر کا کیپشن

نیوزی لینڈ نے سکیورٹی خدشات کے پیشِ نظر عین وقت پر پاکستان کے خلاف میچ ملتوی کر دیا

نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کے دورۂ پاکستان کی منسوخی کا کرکٹ کے حلقوں میں جو ردعمل سامنے آیا ہے وہ اپنی جگہ لیکن اسے کرکٹ سے بڑھ کر بھی معاملے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین خالد محمود نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ بات صرف کرکٹ کی نہیں ہے بلکہ اس کا براہ راست تعلق اس خطے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے ہے۔ افغانستان سے امریکہ کے جانے اور طالبان کے آنے کے بعد پاکستان مخالف قوتیں متحرک ہو چکی ہیں۔ چونکہ پاکستان طالبان کی حکومت کی حمایت کر رہا ہے تو کرکٹ بھی اس کی زد میں آچکی ہے۔ عین ممکن ہے کہ پاکستان مخالف قوتوں نے کسی ذریعے سے نیوزی لینڈ کرکٹ بورڈ کو یہ بتایا ہو کہ پاکستان میں ان کی ٹیم کو خطرہ ہوسکتا ہے‘۔

یہ بھی پڑھیے

خالد محمود کہتے ہیں کہ نیوزی لینڈ کرکٹ بورڈ یا ان کی حکومت کے پاس اگر سکیورٹی خدشات سے متعلق معلومات تھیں تو انھیں پاکستان کرکٹ بورڈ اور پاکستان کی حکومت کے علم میں لانا چاہیے تھا ’یہ بات ان سے فوری طور پر پوچھنی چاہیے کہ آپ کے پاس کس طرح کی سکیورٹی تھریٹس تھیں‘۔

خالد محمود کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال میں ’نقصان ہمارا ہی ہوا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ اور پاکستان کی حکومت کو فوری طور بین الاقوامی سطح پر بہت زیادہ متحرک ہونا پڑے گا اور سب کو یہ بتانا پڑے گا کہ پاکستان میں سکیورٹی کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔‘

خالد محمود کو اس بات کا خدشہ ہے کہ ’اگر پاکستان نے اس صورتحال کو قابو نہیں کیا تو پھر پاکستانی ٹیم کی کرکٹ دوبارہ نیوٹرل مقام پر جا سکتی ہے لیکن جس طرح پاکستان مخالف قوتیں سرگرم ہیں وہ نیوٹرل وینیوز پر بھی رکاوٹ پیدا کر سکتی ہیں، وہاں پر بھی کوئی نہ کوئی بہانہ شروع ہو سکتا ہے۔‘

’یہ کوئی سازش نہیں ہے‘

نجم سیٹھی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

سابق پی سی بی چیئرمین نجم سیٹھی کہتے ہیں کہ ہمیں صرف یہ بتایا گیا ہے کہ ہمارے وزیراعظم نے ان کی وزیراعظم کو سمجھانے کی کوشش کی ہے

پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین نجم سیٹھی اس تاثر سے اتفاق نہیں کرتے کہ یہ پاکستان یا پاکستان کی کرکٹ کے خلاف کوئی سازش ہے۔

نجم سیٹھی نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نیوزی لینڈ کرکٹ بورڈ کے اس فیصلے کے گہرے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

’جب ہم نے انٹرنیشنل کرکٹ کو پاکستان میں واپس لانے کی کوشش کی تھی تو اس وقت کرکٹ کو براہ راست خطرہ لاحق نہیں تھا بلکہ پاکستان میں دہشت گردی کے عمومی خطرات تھے۔ ہم نے آئی سی سی اور دوسرے کرکٹ بورڈز کو بتایا تھا کہ کرکٹ کو خطرہ نہیں ہے لہذا ہم کرکٹ کی حفاظت کریں گے۔ لیکن اس وقت جو صورتحال ہے اس میں نیوزی لینڈ یہ کہہ رہا ہے کہ کرکٹ کو خطرہ ہے، ان کی ٹیم کو براہ راست خطرہ ہے۔ اگر عام خطرہ ہوتا تو وہ اپنی ٹیم کو پاکستان نہ بھیجتے لہذا میں یہ سمجھتا ہوں کہ آخری منٹ میں ایسی کوئی بات ہوئی ہے جس کی وجہ سے انھوں نے یہ فیصلہ کیا‘۔

نجم سیٹھی کہتے ہیں کہ ’ہمیں یہ نہیں بتایا گیا کہ نیوزی لینڈ نے پاکستان کے ساتھ سکیورٹی خدشات کے بارے میں معلومات شیئر کی ہیں یا نہیں۔ ہمیں صرف یہ بتایا گیا ہے کہ ہمارے وزیراعظم نے ان کی وزیراعظم کو سمجھانے کی کوشش کی تھی۔‘

نجم سیٹھی کا کہنا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر آئی سی سی سے رابطہ کرے۔

’جیسا کہ خبریں آرہی ہیں کہ انگلینڈ کرکٹ بورڈ اگلے چند گھنٹوں میں پاکستان کے دورے کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے والا ہے، لہذا یہ بات سمجھنے کی ہے کہ اگر سکیورٹی تھریٹس صرف نیوزی لینڈ کی ٹیم کو تھیں اور وہ عام تھریٹس نہیں ہیں تو ان کی بنیاد پر انگلینڈ کیسے یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ اگر نیوزی لینڈ کو سکیورٹی خدشات لاحق تھے تو وہ بھی پاکستان اپنی ٹیم نہیں بھیجے گا۔ یہ نہیں ہونا چاہیے۔‘

نیوزی لینڈ کے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے؟

نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کی غیر ملکی دورے منسوخ یا ادھورا چھوڑ کر جانے کی کہانی بڑی پرانی ہے۔

سنہ 1987 میں نیوزی لینڈ کی ٹیم سری لنکا کے دورے پر تھی لیکن پہلے ٹیسٹ کے بعد کولمبو میں ہونے والے بم دھماکے میں سو سے زائد افراد کی ہلاکت کے بعد اس نے یہ دورہ ختم کر دیا تھا۔

1992 میں نیوزی لینڈ ٹیم کے متعدد کھلاڑیوں نے کولمبو میں ٹیم ہوٹل کے قریب ہونے والے بم دھماکے کے بعد سری لنکا کا دورہ جاری رکھنے سے انکار کر دیا تھا اور وطن واپس چلے گئی تھی۔ ان میں مارک گریٹ بیچ، گیون لارسن، راڈ لیتھم، ولی واٹسن اور کوچ وارن لیز شامل تھے۔

2001 میں نیوزی لینڈ کی ٹیم پاکستان کے دورے پر روانہ ہوئی اور وہ ابھی سنگاپور پہنچی تھی کہ نائن الیون کا واقعہ رونما ہوگیا اور وہ وہیں سے وطن واپس روانہ ہو گئی۔

2002 میں نیوزی لینڈ کی ٹیم پاکستان کے خلاف کراچی ٹیسٹ کھیلنے کے لیے اپنے ہوٹل سے سٹیڈیم کے لیے روانہ ہونے والی تھی کہ اس دوران فرانسیسی انجینئرز کی خودکش حملے میں ہلاکت کے واقعے نے اسے دورہ ختم کر کے وطن واپس جانے پر مجبور کر دیا تھا۔