دعا

آغا سید حامد علی شاہ موسوی  جمعـء 17 ستمبر 2021
 مصائب و آلام میں جائے پناہ ’’خدائے عزوجل کے نزدیک اہل زمین کے تمام اعمال میں محبوب ترین دعا ہے۔‘‘ ۔  فوٹو : فائل

 مصائب و آلام میں جائے پناہ ’’خدائے عزوجل کے نزدیک اہل زمین کے تمام اعمال میں محبوب ترین دعا ہے۔‘‘ ۔ فوٹو : فائل

قرآن مجید میں اﷲ رب العزت اپنے بندوں کو متوجہ کرتے ہوئے اس امر کا یقین دلاتا ہے، مفہوم: ’’جب کوئی مجھے پکارتا ہے تو میں جواب دیتا ہوں۔‘‘ (سورہ البقرۃ) ’’اور تمہارا رب کہتا ہے مجھ کو پکارو تاکہ پہنچوں تمہاری پکار کو۔‘‘ (سورۃ مومن)

دعا مایوسی میں امید کی کرن ہے جب امید کے تمام دریچے بند ہوجاتے ہیں تو دعا ہی مایوسی کے اندھیرے میں چراغ کا کام دیتی اور انسان ایک ایسی ذات کی طرف متوجہ ہوتا ہے جس سے روح کو تازگی ملتی اور دل کو سکون محسوس ہوتا ہے۔

زمانے کے بے رحم تھپیڑوں میں تحفظ کا احساس اور ظلم و جبر سے ٹکرانے کا حوصلہ ملتا ہے۔ دعا ہی وہ آستانہ ہے جس میں اﷲ کے اولیاء کو نہ کسی زبردست کا خوف ہوتا ہے اور نہ انہیں کوئی حزن و ملال آزردہ کرتا ہے۔

خداوند عالم نے قرآن مجید میں دعا کے کچھ راہ نما اصول بھی سکھا دیے۔

’’دعا مانگو گڑگڑا کر اور خاموشی سے۔‘‘ (سورہ الاعراف)

’’دعا مانگو اﷲ سے ڈرتے ہوئے اور امید رکھتے ہوئے۔‘‘ (سورہ الاعراف) گویا دعا اﷲ سے راز و نیاز کا ذریعہ ہے۔ ہادی برحق رسول خدا ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ دعا مومن کا ہتھیار ہے۔ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: عاجز ترین شخص وہ ہے جو دعا سے عاجز ہو۔ باب مدینۃ العلم امیر المومنین حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کا فرمان ہے: ’’خدائے عزوجل کے نزدیک اہل زمین کے تمام اعمال میں محبوب ترین دعا ہے۔‘‘

دعا کرنے کے جو راہ نما اصول قرآن اور مشاہیر اسلام نے بتائے اس کی عملی تفسیر دیکھنا ہو تو صحیفۂ سجادیہ میں نظر آئے گی جو خانوادہ اہل بیتؓ کے عظیم فرد اور نواسہ رسول الثقلینؐ حضرت امام حسینؓ کے فرزند حضرت امام علی ابن الحسین المعروف امام زین العابدینؓ کی بتائی ہوئی دعاؤں کا مجموعہ ہے۔

صحیفۂ سجادیہ ایسی مناجات اور راز و نیاز پر مشتمل ہے جو کہ ایک انسان اپنی زندگی کی مشکلات کے بحران میں اپنے خدا کے ساتھ خلوت تنہائی میں بیان کرتا ہے۔ ان دعاؤں اور مناجات سے پروردگار کی عظمت و قدرت کے سامنے انسان کی عاجزی و ناتوانی کا احساس بیدار ہوتا ہے، عجز و انکساری پر مشتمل الفاظ و عبارات اﷲ سے طلب حاجت کا ذریعہ ہی نہیں انسان کی روحانی تربیت کا بھی وسیلہ ہیں۔

امام زین العابدینؓ ان ہستیوں میں شامل ہیں کہ انہیں عبادت گزاروں کی زینت کہا گیا۔ آپؓ کی تعلیم کردہ دعائیں گناہ گار انسانوں کے لیے درس ہدایت کا بہترین اور موثر ترین ذریعہ ہیں۔ یہ دعائیں فکر انسان کو پرواز کا طریقہ سکھاتی ہیں اور عقل انسانی کو شعور و ادراک کی دولت عطا کرتی ہے۔ یہ دعائیں بندگانِ خدا کے لیے موعظہ و ہدایت ہیں جن کو سمجھنے والا دانائے راز، عارف اور صاحب بصیرت بن جاتا ہے۔

امام زین العابدینؓ دشمن کے مکر و فریب سے بچنے کی دعا میں کس منفرد انداز میں ایک گناہ گار کو عاجزی و انکساری کے ساتھ منعم حقیقی کے سامنے مناجات پیش کرنے کا سلیقہ سکھاتے ہیں : ’’اے میرے معبود! ایک گنہگار تیری ہی طرف بھاگ کر آتا ہے اور ایک التجا کرنے والا جو اپنے حظ و نصیب کو ضایع کرچکا ہو، تیرے ہی دامن میں پناہ لیتا ہے۔ اے اﷲ! جو تیرے سایۂ حمایت میں پناہ لے گا وہ شکست خوردہ نہیں ہوگا اور جو تیرے انتقام کی پناہ گاہ محکم میں پناہ گزیں ہوگا و ہ ہراساں نہیں ہوگا۔

چناں چہ تُونے اپنی قدرت سے ان کی شدت و شرانگیزی سے مجھے محفوظ کر دیا۔ اور کتنے ہی مصیبتوں کے ابر (جو میرے افق زندگی پر چھائے ہوئے) تھے تُونے چھانٹ دیے اور کتنی ہی رحمت کی نہریں بہا دیں اور کتنے ہی صحت و عافیت کے جامے پہنا دیے اور کتنی ہی آلام و حوادث کی آنکھیں (جو میری طرف اٹھی ہوئی تھیں) تُونے بے نور کر دیں اور کتنے ہی غموں کے تاریک پردے (میرے دل پر سے) اٹھا دیے اور کتنے ہی اچھے گمانوں کو تُونے سچ کر دیا اور کتنی ہی تہی دستیوں کا تُونے چارہ کیا اور کتنی ہی ٹھوکروں کو تُونے سنبھالا اور کتنی ہی ناداریوں کو تُونے (ثروت سے ) بدل دیا۔

(بارالہا!) یہ سب تیری طرف سے انعام و احسان ہے اور میں ان تمام واقعات کے باوجود تیری معصیتوں میں ہمہ تن منہمک رہا۔ (لیکن) میری بد اعمالیوں نے تجھے اپنے احسانات کی تکمیل سے روکا نہیں اور نہ تیرا فضل و احسان مجھے ان کاموں سے جو تیری ناراضی کا باعث ہیں باز رکھ سکا اور جو کچھ تُو کرے اس کی بابت تجھ سے پوچھ گچھ نہیں ہو سکتی۔

تیری ذات کی قسم! جب بھی تجھ سے مانگا گیا تُونے عطا کیا اور جب نہ مانگا گیا تو تُونے از خود دیا۔ اور جب تیرے فضل و کرم کے لیے جھولی پھیلائی گئی تو تُونے بخل سے کام نہیں لیا۔ اے میرے مولا و آقا! تُونے کبھی احسان و بخشش اور تفضل و انعام سے دریغ نہیں کیا۔ اور میں تیرے محرمات میں پھاندتا، تیرے حدود و احکام سے متجاوز ہوتا اور تیری تہدید و سرزنش سے ہمیشہ غفلت کرتا رہا۔

اے میرے معبود! تیرے ہی لیے حمد ستائش ہے جو ایسا صاحب اقتدار ہے جو مغلوب نہیں ہوسکتا۔ اور ایسا بردبار ہے جو جلدی نہیں کرتا۔ یہ اس شخص کا موقف ہے جس نے تیری نعمتوں کی فراوانی کا اعتراف کیا ہے اور ان نعمتوں کے مقابلے میں کوتاہی کی ہے اور اپنے خلاف اپنی زیاں کاری کی گواہی دی ہے۔ اے میرے معبود ! میں محمد صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی منزلت بلند پایہ اور علی کرم اﷲ وجہہ کے مرتب روشن و درخشاں کے واسطے سے تجھ سے تقرب کا خواست گار ہوں اور ان کے وسیلہ سے تیری طرف متوجہ ہوں تاکہ مجھے ان چیزوں کی برائی سے پناہ دے جن سے پناہ طلب کی جاتی ہے۔

اس لیے کہ یہ تیری تونگری و وسعت کے مقابلے میں دشوار اور تیری قدرت کے آگے کوئی مشکل کام نہیں ہے اور تُو ہر چیز پر قادر ہے لہذا تو اپنی رحمت اور دائمی توفیق سے مجھے بہرہ مند فرما کہ جسے زینہ قرار دے کر تیری رضا مندی کی سطح پر بلند ہوسکوں اور اس کے ذریعے تیرے عذاب سے محفوظ رہوں۔ اے تمام رحم کرنے والوں میں سب سے بڑھ کر رحم کرنے والے!‘‘

اﷲ سے طلب پناہ کی دعا امام زین العابدینؓ نے یوں تعلیم فرمائی: ’’بارالہا! اگر تُو چاہے کہ ہمیں معاف کر دے تو یہ تیرے فضل کے سبب سے ہے اور اگر تُو چاہے کہ ہمیں سزا دے تو یہ تیرے عدل کی رُو سے ہے۔ تُو اپنے شیوہ احسان کے پیش نظر ہمیں پوری معافی دے اور ہمارے گناہوں سے درگزر کرکے اپنے عذاب سے بچا لے۔

اس لیے کہ تیرے عدل کی تاب نہیں ہے۔ اور تیرے عفو کے بغیر ہم میں سے کسی ایک کی بھی نجات نہیں ہو سکتی۔ اے بے نیازوں کے بے نیاز! ہاں تو پھر ہم سب تیرے بندے ہیں جو تیرے حضور کھڑے ہیں اور میں سب محتاجوں سے بڑھ کر تیرا محتاج ہوں۔

لہٰذا اپنے بھرے خزانے سے ہمارے فقر و احتیاج کو بھر دے ، اور اپنے دروازے سے رد کرکے ہماری امیدوں کو قطع نہ کر۔ ورنہ جو تجھ سے خوش حالی کا طالب تھا وہ تیرے ہاں سے حرماں نصیب ہوگا اور جو تیرے فضل سے بخش و عطا کا خواست گار تھا وہ تیرے در سے محروم رہے گا۔ تو اب ہم تجھے چھوڑ کر کس کے پاس جائیں اور تیرا در چھوڑ کر کدھر کا رخ کریں۔ تُو اب اپنی بارگاہ میں ہماری تضرع و زاری پر رحم فرما۔ اور جب کہ ہم نے اپنے کو تیرے آگے (خاک مذلت پر) ڈال دیا ہے تو ہمیں (فکر و غم سے) نجات دے۔‘‘

آج جب اسلام اور اہل اسلام ایک خوف ناک ساز ش اور بحران در بحران سے دوچار ہیں۔ سرفرازی کے طلب گار ہر مسلمان کو دعا کا سہارا لینا ہوگا کیوں کہ مایوسیوں کا دور دورہ ہو تو دعا کے سوا کوئی جائے پناہ نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔