مچھلیوں کو منشیات کی لت کیوں لگ رہی ہے؟

  • میٹ پارکر، الیکس فورڈ
  • بی بی سی فیوچر
منشیات

،تصویر کا ذریعہAlamy

دنیا بھر میں ہر سال تقریباً 27 کروڑ افراد منشیات کا استعمال کرتے ہیں لیکن اس سلسلے میں جو ایک بنیادی بات لوگ بھول جاتے کہ یہ ایک جاندار کے جسم کا معاملہ ہے جس کے تحت جو چیز پیٹ میں جاتی ہے وہ فضلے کی شکل میں باہر بھی نکلتی ہے اور اسی وجہ سے دنیا بھر میں گٹر منشیات کی آمیزش سے آلودہ فضلے سے بھر گئے ہیں۔

سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹس میں اس قسم کے مواد کو صاف کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ اس کے لیے بنائے جاتے ہیں اور جب یہ نالے دریاؤں اور سمندروں میں جا نکلتے ہیں تو ان میں موجود اجزا سمندری حیات کو متاثر کرتے ہیں۔

سائنسی جریدے جرنل آف ایکسپیریمنٹل بائیولوجی میں شائع ہونے والی حالیہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ یورپی ملک چیک ریپبلک میں محققین نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ میتھ ڈرگ کس طرح جنگلی ٹراؤٹ مچھلی کو متاثر کر رہی ہے۔

محققین نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ میتھ اور اس کے بائی پراڈکٹ ایمفاٹامائین کے ذرات کس طرح وائلڈ براؤن ٹراؤٹ کو متاثر کرتے ہوئے ان کے دماغوں تک پہنچ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے یہ بھی جاننے کی کوشش کی کہ منشیات کی کتنی مقدار ان مچھلیوں کو ان کا عادی بنا سکتی ہے۔

ان مچھلیوں کو بڑے بڑے ٹینکوں میں میتھ ملے پانی میں رکھا گیا اور پھر بعد میں انھیں وہاں سے نکال کر ایسے پانی میں رکھا گیا جس میں منشیات کا نام و نشان بھی نہیں تھا، جہاں وہ دس دن تک رہیں۔

اس اثنا میں محققین نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ مچھلیںاں تازہ پانی میں رہنا پسند کرتی ہیں یا منشیات ملے پانی میں اور اس کے مقابلے میں انھوں نے اُن مچھلیوں سے موازنہ کیا جو کبھی بھی میتھ والے پانی میں نہیں رہیں۔

مچھلی

،تصویر کا ذریعہAlamy

ان محققین کو ملنے والے نتائج کافی حیرت انگیز تھے۔

وہ مچھلیاں جنھوں نے میتھ ملے پانی میں وقت گزارا تھا وہ اسی پانی میں رہنا چاہتی تھیں جبکہ وہ مچھلیاں جنھوں نے میتھ ملے پانی میں کبھی وقت نہیں گزارا انھیں اس بات کی پروا نہیں تھی کہ وہ تازہ پانی میں جائیں یا میتھ والے پانی میں رہیں۔

محققین کو یہ بھی معلوم ہوا کہ منشیات والے پانی کی عادی مچھلیوں کو جب اس ٹینک سے نکال کر رکھا گیا تو ان کی نقل و حرکت میں کمی دیکھنے میں آئی۔

یہ بھی پڑھیے

سائنسدانوں نے اس کا مطلب یہ اخذ کیا کہ مچھلیاں اضطرابی کیفیت سے گزر رہی ہیں، جو کہ اُس رویے سے ملتا جلتا ہے جو عام انسانوں میں دیکھنے میں آتا ہے جو منشیات کے عادی ہوتے ہیں لیکن ان کو منشیات نہیں ملتی۔

منشیات والے پانی میں رہنے والی مچھلیوں کی ذہنی حالت بھی دوسری مچھلیوں کے مقابلے میں مختلف تھی۔ گو کہ ان مچھلیوں کو جب دس روز تک تازہ پانی میں رکھا گیا تو منشیات کا اثر کم ضرور ہوا اور ان کا ذہنی رویہ تبدیل ہوا لیکن ختم نہیں ہوا۔

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ میتھ ڈرگ کا ان مچھلیوں پر دیرپا اثر رہتا ہے اور یہ رویہ انسانوں سے مشابہت رکھتا ہے جو میتھ استعمال کرتے ہیں۔

لیکن اگر مچھلیوں کو منشیات کی لت لگ رہی ہے تو ہمیں اس کی کیوں پروا ہونی چاہیے؟ اس کی کئی وجوہات ہیں۔

اگر ٹراؤٹ مچھلیوں کو منشیات والے پانی میں ’اتنا مزہ‘ آ رہا ہے جیسا کہ اس تحقیق میں نظر آیا ہے، اس رجحان سے ممکن ہے کہ وہ ان پائپس کے قریب جمع ہو جائیں جہاں سے نالے کا پانی دریاؤں اور سمندروں میں گرتا ہے۔

متعدد تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مچھلیاں کسی لت لگ جانے کے بعد ویسا ہی رویہ اختیار کرتی ہیں جو انسانوں کا ہوتا ہے اور ممکن ہے کہ نشے کے عادی انسانوں کی طرح مچھلیوں کی بھی دیگر سرگرمیوں سے دلچسپی ختم ہو سکتی ہے، جیسے کھانا پینا اور بچے پیدا کرنا۔

ان محققین کے نزدیک یہ بالکل ممکن ہے کہ مچھلیاں اپنا قدرتی رویہ تبدیل کر لیں اور اپنی حرکات و سکنات کو بدل دیں تو اگے چل کر ممکن ہے کہ وہ اپنی حفاظت کرنا بھی کم کر دیں۔

منشیات کی لت سے مچھلیوں پر ہی نہیں بلکہ ان کے بچوں پر بھی اثر پڑتا ہے۔ مچھلیوں میں یہ لت کئی نسلوں میں منتقل ہو سکتی ہے۔ اگر اس مسئلے کو فوراً حل کر بھی دیا جائے تو بھی اس سے ماحول پر طویل مدتی اثرات مرتب ہو چکے ہوں گے۔

یہ پہلی ایسی تحقیق نہیں جس میں جنگلی حیات میں غیر قانونی منشیات پائی گئیں۔ سنہ 2019 میں برطانوی سائنسدانوں کو تازہ پانی کے 15 دریاؤں میں موجود جھینگوں میں کوکین کے ذرات ملے تھے۔

دلچسپ بات یہ تھی کہ ان میں عام ادویات کے مقابلے غیر قانونی منشیات کے ذرے زیادہ پائے گئے تھے۔

مگر ان منشیات کے وسیع اثرات کے بارے میں اب بھی اتنی معلومات دستیاب نہیں تاہم ایسی تحقیقات موجود ہیں جن میں دریاؤں میں موجود طبی ادویات کے اثرات کی جانچ کی گئی ہے۔

ہمارے جسم میں ادویات مکمل طور پر گھل نہیں پاتیں اور یہ سیوریج ٹریٹمنٹ پلاٹ میں فضلے اور پیشاب کے ساتھ پہنچتی ہیں لیکن کچھ ادویات کوڑے کرکٹ اور کھیتوں کے ذریعے دریاؤں میں داخل ہوتی ہیں جہاں انسانی سیوریج کو فرٹیلائزر کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

سیوریج کے پانی میں ادویات کی بڑی تعداد پائی جاتی ہے۔ درد کشا اور اینٹی ڈپریشن سمیت تمام ادویات دریاؤں اور ساحل سمندر کے پانی میں جنگلی حیات کے پاس پہنچ جاتی ہیں۔

مانع حمل ادویات میں ایسے کیمیائی مادے پائے جاتے ہیں جن سے ہارمون کا توازن خراب ہو جاتا ہے۔ پانی میں ایسی ادویات نے کچھ ہی ہفتوں میں نیٹ میں رکھی گئی مچھلیوں کے سیکس بدل کر انھیں نر سے مادہ بنا دیا تھا۔

حالیہ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ اینٹی ڈپریشن ادویات سے سمندری حیات کے رویے تبدیل ہو جاتے ہیں، ان کا رویہ جارحانہ ہو سکتا ہے، وہ روشنی کی طرف مائل ہوتے ہیں اور ان میں دلیری بڑھ سکتی ہے۔

منشیات کی لت ایک عالمی صحت کا مسئلہ ہے جس سے نسلیں اور قومیں تباہ ہو سکتی ہیں لیکن ماحول پر اس کے اثرات سے نمٹنا مہنگا ثابت ہو سکتا ہے۔ ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ انگلینڈ اور ویلز میں سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹس میں ان کیمیائی مادوں کو خارج کرنے کی صلاحیت پیدا کرنے میں 50 ارب ڈالر سے زیادہ کا خرچ آ سکتا ہے۔

شاید آپ کو یہ بات عام سی لگے کہ غیر قانونی منشیات انسانی رویہ بدلنے کے ساتھ جنگلی حیات کے رویے میں بھی تبدیلی لا سکتی ہیں مگر یہ مسئلہ وسیع پیمانے پر پھیل چکا ہے اور اب پیچیدہ ہو گیا ہے۔

ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ آیا روزمرہ استعمال ہونے والی اشیا جیسے کاسمیٹکس، کپڑے، صفائی کے پراڈکٹس میں موجود مصنوعی کیمیکل سے انسانوں اور دوسرے جانداروں کا رویہ تبدیل ہو سکتا ہے۔

سائنسدانوں کے ایک بین الاقوامی گروہ نے کمپنیوں اور حکومتی نگراں اداروں سے کہا ہے کہ نئے کیمیکلز کے خطرات کی آزمائش کریں تاکہ اس سے رویے پر ہونے والے اثرات کی جانچ کی جا سکے۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم اپنے پانی میں ادویات کی ملاوٹ کا تعین کر سکیں تو ہمیں سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹس سے ہونے والی فلٹریشن کو بہتر کرنا ہو گا اور واٹر فلٹر کی کمپنیوں کو اس ذمہ داری سے باور کرانا ہو گا کہ سیوریج کا پانی جنگلی حیات کو متاثر نہ کرے۔

مارک پارکر یورنیورسٹی آف پورٹس ماؤتھ میں نیورو سائنس اور سائیکو فارماکالوجی کے سینیئر لیکچرر ہیں۔ ایلکس فورڈ یورنیورسٹی آف پورٹس ماؤتھ میں بائیولوجی کے پروفیسر ہیں۔