ہارورڈ یونیورسٹی کے مؤرخ ڈاکٹر سوین بیکرٹ کے مطابق چنٹز یعنی چھینٹ کی کہانی بہت وسیع اور المناک ہے۔
یہ اس تجارت کا آغاز تھا جو بعد میں پرتشدد رخ اختیار کر گئی جس پر تسلط حاصل کرنے کے لیے 100 سال بعد یورپی ممالک نے ایسٹ انڈیا کمپنی تشکیل دی۔یہ اس تجارت کا آغاز تھا جو بعد میں پرتشدد رخ اختیار کر گئی جس پر تسلط حاصل کرنے کے لیے سو سال بعد یورپی ممالک نے ایسٹ انڈیا کمپنی تشکیل دیلیکن واسکو ڈے گاما جلد ہی پتہ چل گیا کہ یہاں ان کے اونی اور لیلن کے کپڑوں کا کوئی حریدار نہیں۔ جس کے بعد وہ انڈین چھینٹ کپڑوں کی طرف متوجہ...
15ویں صدی میں شروع ہونے والا ان کا چھینٹ کا کاروبار ’کیلیکو کریز‘ میں بدل گیا اور 17ویں صدی میں یہ عروج کو پہنچ گیا۔ کرل لکھتے ہیں کہ سفید رنگ صحت، حفظان صحت اور پاکیزگی کے بارے میں بھی نئے معاشرتی اور ثقافتی رویوں کا مظاہرہ کرتا تھا۔17ویں صدی کے وسط سے لباس تیار کرنے کے لیے چھینٹ کا استعمال کیا جاتا تھا۔ سنہ 1625 سے یورپی تاجروں نے ہندوستانی فنکاروں کو یورپی جمالیات کے مطابق ڈیزائن تیار کرنے کی ہدایات دینا شروع کردی۔
عام لوگوں کے لیے ریشم پہننے کے ضابطے تھے لیکن سوتی کپڑے کے بارے میں کوئی ضابطہ نہیں تھا اور چھینٹ کے کریز سے یورپ میں درآمد کرنے والے تاجروں کو بہت منافع ہوا۔ لیکن یورپ کے مقامی تاجر اس سے خوش نہیں تھے۔ سنہ 1700 کے دوران یورپی ٹیکسٹال ملوں نے گھریلو سطح پر چھینٹ کی نقل بنانی شروع کر دی اس سے تکنیکی بہتری بھی آئی۔
سنہ 1776 میں امریکہ میں آزادی کے اعلان کے بعد مغرب میں چھینٹ کی طلب میں بھی نمایاں کمی واقع ہوئی اور برطانیہ کے ہاتھ سے اپنی مشینی چھینٹ کے لیے امریکی منڈی نکل چکی تھی۔اٹھارویں صدی کے وسط میں برطانیہ میں فن اور دستکاری کی تحریک نے صنعتی مصنوعات کی تردید اور دستکاری اور ڈیزائنوں کو اپنانے پر زور دیا۔انٹیرئر ڈیکوریشن کے لیے چنٹز کی طلب برطانیہ کے ساتھ ساتھ برطانیہ کی مشرقی کالونیوں میں بھی برقرار رہی۔ ایران جیسے ممالک میں اس کی مانگ بڑھ رہی تھی جو انڈیا کی ایک بڑی مارکیٹ...
پاکستان تازہ ترین خبریں, پاکستان عنوانات
Similar News:آپ اس سے ملتی جلتی خبریں بھی پڑھ سکتے ہیں جو ہم نے دوسرے خبروں کے ذرائع سے جمع کی ہیں۔
ذریعہ: DailyPakistan - 🏆 3. / 63 مزید پڑھ »
ذریعہ: BBCUrdu - 🏆 11. / 59 مزید پڑھ »
ذریعہ: Nawaiwaqt_ - 🏆 6. / 63 مزید پڑھ »
ذریعہ: BBCUrdu - 🏆 11. / 59 مزید پڑھ »
ذریعہ: ExpressNewsPK - 🏆 13. / 53 مزید پڑھ »
ذریعہ: DailyPakistan - 🏆 3. / 63 مزید پڑھ »