ابھینندن کے معاملے پر ایاز صادق کا بیان اور ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار کا جواب: 26 فروری کو انڈیا کو ’منھ کی کھانی پڑی، انھیں اب تک تکلیف ہے‘

شبلی، ایاز، بابر

،تصویر کا ذریعہPTV/ISPR

پاکستان مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی اور سابق سپیکر نیشنل اسمبلی ایاز صادق کے بھارتی پائلٹ ابھینندن کی رہائی کے بارے میں قومی اسمبلی کے ایوان میں دیئے گئے بیان پر شروع ہونے والا تنازع شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ایاز صادق کی وضاحت کے باوجود ان کا بیان انڈیا اور پاکستان کے ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر بیانات اور جوابی بیانات کی جنگ کا باعث بنا ہوا ہے۔

اس معاملے پر پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے ایاز صادق کا نام لیے بغیر کہا ہے کہ ’ایک ایسا بیان دیا گیا جس کے ذریعے قومی سلامتی سے منسلک ملکی تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی۔‘

اس کے علاوہ کابینہ کے وزرا بھی ان کے دعوؤں کو رد کرنے کے لیے میدان میں آ گئے۔

وفاقی وزیر اسد عمر نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’بھارت کے 9 بجے حملے کی انٹیلی جنس رپورٹ بلکل ملی تھی. وہ حملہ اس لیے رکا کے بھارت کو پیغام پہنچایا گیا تھا کے ہمیں حملے کی تیاری کا بھی پتہ ہے اور جواباً اس سے زیادہ کاری ضرب لگانے کی تیاری بھی مکمل ہے. ابھی نندن کے جہاز گرنے کے بعد بھارت کو پتہ تھا ہم صرف زبانی دھمکی نہیں دیتے۔‘

Twitter پوسٹ نظرانداز کریں, 1
Twitter کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

Twitter پوسٹ کا اختتام, 1

اسد عمر کی ٹویٹ پر بعض لوگوں کا خیال ہے کہ انھوں نے تسلیم کر لیا کہ بقول ان کے انڈیا کی طرف سے حملے کا امکان تھا۔

انھوں نے اس کے بعد مزید ٹویٹ کر کے اس موضوع پر اظہارِ خیال کیا اور کہا کہ ’ایاز صادق صاحب آپ پتہ نہیں کس کے اشارے پر تاریخ مسخ کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں. لیکن صرف پاکستان نہیں دنیا گواہی دے رہی ہے کے بھارت کے اندھیرے میں چھپ کر بزدلانہ وار کا منہ توڑ جواب دے کر افواج پاکستان نے ایک بار پھر دکھایا کے واقعی اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے۔‘

Twitter پوسٹ نظرانداز کریں, 2
Twitter کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

Twitter پوسٹ کا اختتام, 2

بدھ کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران ایاز صادق نے دعویٰ کیا تھا پاکستان کو انڈیا کی جانب سے حملے کا ڈر تھا اور اسی لیے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے انڈین پائلٹ ابھینندن کی رہائی کے لیے ’گھٹنے ٹیک دیے تھے۔‘

اس کے بعد جمعرات کی دوپہر کو ویڈیو پر اپنے ایک وضاحتی پیغام میں ایاز صادق نے کہا کہ انڈیا کا طیارہ گرانا پاکستان کی فتح تھی لیکن ابھینندن کو واپس کرنے کی کوئی جلدی نہیں تھی اور یہ ذرا سا انتظار کر لیتے۔

گذشتہ روز قومی اسمبلی میں کی گئی اس تقریر کا پاکستان کے سوشل میڈیا پر فوری ردِ عمل تو سامنے نہیں آیا، تاہم ٹوئٹر پر موجود انڈین تجزیہ نگاروں اور انڈین میڈیا کی جانب سے اس بیان پر تبصروں کے بعد پاکستان میں بھی صارفین کا ردعمل سامنے آنے لگا۔

بظاہر اسی بیان کے جواب میں پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل بابر افتخار نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا کو ’منھ کی کھانی پڑی اور یہ بات انھیں اب تک تکلیف میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔‘

ڈی جی آئی ایس پی آر: پاکستان نے ذمہ دار ریاست کے طور پر امن کو ایک اور موقع دیا

میجر جنرل بابر افتخار نے ایاز صادق کا نام لیے بغیر کہا کہ ’ایک ایسا بیان دیا گیا جس کے ذریعے قومی سلامتی سے منسلک ملکی تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی۔‘

اسی حوالے سے مزید پڑھیے

’اس معاملے کو کسی اور طرح جوڑنا افسوسناک اور گمراہ کن ہے۔ یہ پاکستان کی انڈیا پر واضح فتح کو متنازع بنانے کے مترادف ہے اور ایسا عمل کسی بھی پاکستانی کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔‘

بابر افتخار کا کہنا تھا کہ ’26 فروری کو انڈیا نے تمام بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف جارحیت کی۔ جس کے جواب میں انڈیا کو منھ کی کھانی پڑی اور پوری دنیا میں ہزیمت اٹھانی پڑی۔ پاکستان کے ردعمل نے دشمن کے عزائم کو ناکام بنا دیا۔‘

میجر

،تصویر کا ذریعہRadio Pakistan

’دشمن کے جہاز جو بارود پاکستان کی عوام پر گرانے آئے تھے وہ بدحواسی میں خالی پہاڑوں پر پھینک کر چلے گئے۔ اس کے جواب میں افواج پاکستان نے دشمن کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے میں سول اور ملٹری قیادت یکجا تھی۔‘

انھوں نے کہا کہ پاکستان نے اعلانیہ اور دن کی روشنی میں دشمن کو جواب دیا۔ ’ہم نے نہ صرف جواب دیا بلکہ دشمن کے دو جہاز مار گرائے اور ونگ کمانڈر ابھینندن کو گرفتار کیا۔ ہماری اس کامیابی سے دشمن اتنا خوفزدہ ہوا کہ اپنا ہی ایک ہیلی کاپٹر گرا دیا۔‘

انھوں نے کہا کہ ہمیں اس معاملے میں واضح فتح نصیب ہوئی۔ پاکستان کی فتح کو ناصرف پوری دنیا نے تسلیم کیا بلکہ انڈیا کی قیادت نے رفال طیاروں کی عدم دستیابی کو اس کا ذمہ دار قرار دیا۔

’حکومت پاکستان نے ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر امن کو ایک اور موقعہ دیتے ہوئے انڈین جنگی قیدی ابھینندن کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس ذمہ دارانہ فیصلے کو پوری دنیا نے سراہا۔‘

انھوں نے کہا کہ ایسے منفی بیانیے کہ قومی سلامتی پر براہ راست اثرات ہوتے ہیں۔ یہی بیانیہ دشمن قوتیں استعمال کر رہی ہیں۔

پاکستان

ایاز صادق کی وضاحت: انڈین میڈیا نے بیان ’سیاق و سباق سے ہٹ کر نشر کیا‘

’ابھینندن کی تو بات ہی نہ کریں۔ مجھے یاد ہے شاہ محمود قریشی صاحب بھی اس میٹنگ میں تھے، جس میں وزیرِ اعظم نے آنے سے انکار کر دیا اور فوج کے سربراہ تشریف لائے۔ پیر کانپ رہے تھے، ماتھے پر پسینہ تھا، اور ہم سے شاہ محمود صاحب نے کہا کہ خدا کا واسطہ ہے، اب اس (ابھینندن) کو واپس جانے دیں کیونکہ اگر ایسا نہ ہوا تو رات نو بجے ہندوستان پاکستان پر حملہ کرنے والا ہے۔ ہندوستان نے کوئی حملہ نہیں کرنا تھا، صرف گھٹنے ٹیک کر ابھینندن کو واپس بھیجنا تھا۔‘

انڈیا سے آنے والے ردعمل کو دیکھتے ہوئے جمعرات کی دوپہر جاری ہونے والے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں ایاز صادق نے وضاحت کی کہ ان کے گذشتہ روز کے بیان کے حوالے سے انڈین میڈیا میں جو کچھ نشر کیا جا رہا ہے وہ سیاق و سباق سے ہٹ کر ہے اور اس کے بالکل برعکس ہے جو انھوں نے درحقیقت کہا تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ابھینندن جب پاکستان آئے تھے تو وہ کوئی مٹھائی بانٹنے نہیں آئے تھے، انھوں نے پاکستان پر حملہ کیا تھا اور ان کا طیارہ گرانا پاکستان کی فتح تھی۔‘

انھوں نے کہا ’مگر جب عمران خان نے پارلیمانی رہنماؤں کی میٹنگ بلائی تو شاہ محمود اس میں آئے، ماتھے پر اتنا پسینہ تھا اور وہ کافی پریشان تھے۔ وہ کس کے کہنے پر یہ کر رہے تھے، ان پر کیا دباؤ تھا، وزیر اعظم نے ہم سے شیئر کرنا مناسب نہیں سمجھا کیونکہ وہ میٹنگ میں تشریف نہیں لائے۔‘

ان کا کہنا تھا ’شاہ محمود قریشی نے آ کر کہا کہ ہم ابھینندن کو واپس کرنا چاہ رہے ہیں۔ ہم نے نیشنل انٹرسٹ کی خاطر یہ کیا اور یہ فیصلہ سول لیڈرشپ کا تھا۔ ہم اس فیصلے سے متفق نہیں تھے کیونکہ ابھینندن کو واپس کرنے کی کوئی جلدی نہیں تھی اور ذرا سا انتظار کر لیتے۔‘

ان کا کہنا تھا یہ فیصلہ قومی مفاد میں کیا گیا مگر اس میں سول لیڈرشپ کی کمزروی نظر آئی۔

شبلی فراز

،تصویر کا ذریعہRadio Pakistan

شبلی فراز: ’ایسی باتوں سے دشمن کے ایجنڈے کو تقویت ملتی ہے‘

دوسری جانب پارلیمان کے ایوان بالا میں خطاب کرتے ہوئے وزیر اطلاعات شبلی فراز کا کہنا تھا کہ اپوزیشن رہنماؤں کی جانب سے اس قسم کی باتیں کی جا رہی ہیں جن سے دشمن کے ایجنڈے کو شہ ملتی ہے۔

ایاز صادق کے وائرل بیان کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’27 فروری 2019 کو پاکستان کی بہادر ایئر فورس نے انڈیا کے جہاز کو گرایا تھا، لیکن آج میں نے خبروں میں پڑھا کہ اسے بھی متنازع بنا دیا گیا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ملکی مفاد کے خلاف ایسی بات کرتے ہوئے آپ کو شرم آنی چاہیے۔‘

شبلی فراز نے کہا کہ ہم نے دنیا کو اپنی فراخ دلی دکھانے کے لیے ابھینندن کو رہا کیا تھا لیکن انھوں نے ہماری جیت کو بھی شکست قرار دینے کی کوشش کی ہے اور اسے بھی متانازع بنایا ہے۔

یاد رہے کہ 27 فروری 2019 کو پاکستانی علاقے بالاکوٹ کے گاؤں جابہ پر انڈین طیاروں کی بمباری کے ایک دن بعد لائن آف کنٹرول کے قریبی علاقے ہوڑاں میں پاکستان کی فضائیہ نے انڈین جیٹ گرا کر فائٹر پائلٹ وِنگ کمانڈر ابھینندن ورتمان کو گرفتار کر لیا تھا۔

تاہم تحویل میں لیے جانے کے 60 گھنٹے بعد ہی انھیں انڈین حکام کے حوالے کر دیا گیا تھا۔

ایاز صادق کے بیان پر سوشل میڈیا ردعمل

ایک جانب تو انڈیا میں صارفین اور تجزیہ نگار ان الفاظ کے ذریعے فروری 2019 میں پاکستان کے ساتھ ہونے والی کشیدگی میں اپنی فتح کا اعلان کر رہے تھے، تو دوسری جانب پاکستانی صارفین رکنِ قومی اسمبلی کو ’غدار‘ اور طرح طرح کے القابات سے نوازتے ہوئے اُن کے خلاف کارروائی کا مطالبہ بھی کر رہے تھے۔

سوشل میڈیا دیکھ کر بظاہر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ تقریباً 20 ماہ قبل ہونے والی اس کشیدگی کی پاکستانی اور انڈین عوام کے لیے آج بھی ویسی ہی اہمیت ہے جیسی دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والے کسی کرکٹ میچ کی ہوتی ہے۔

فرق شاید صرف اتنا ہے کہ اس حوالے سے دونوں ہی کا یہ خیال ہے کہ فتح ان کے حصے میں آئی تھی۔

انڈیا میں میڈیا اور اکثر صارفین یہ تبصرہ بھی کرتے دکھائی دیے کہ ایاز صادق کے یہ الفاظ کہ ’پیر کانپ رہے تھے، پسینہ ماتھے پر تھا‘ دراصل پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل باجوہ کے لیے استعمال کیے گئے تھے تاہم تقریر غور سے سننے پر علم ہوتا ہے کہ یہ الفاظ وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کے لیے استعمال ہوئے۔

پاکستان

،تصویر کا ذریعہTwitter/@babarhayat101

اپنے ہی ہاتھوں اپنی ہی عزت کو تار تار کرنا؟

پاکستانی سوشل میڈیا پر ابھینندن کا ٹرینڈ کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ کبھی ان کی انڈین فضائیہ کی جانب سے سامنے آنے والی کسی خبر پر تبصرے ہوتے رہے ہیں تو کبھی پاکستان میں چائے کی پیالی کو ’بہت اعلیٰ‘ کہنے پر بات ہوئی ہے۔

تاہم یہ تمام تبصرے کبھی طنز اور کبھی مذاق کے طور پر کیے جاتے تھے لیکن آج اکثر صارفین خاصے غصے میں دکھائی دیے۔

’ایک صارف نے لکھا کہ ایاز صادق کے بیان نے میرا دل توڑ دیا۔ میں اس وقت رو رہی ہوں، اتنی بے عزتی، اپنے ہی ہاتھوں اپنے ہی عزت تار تار کرنے جیسا ہے۔‘

مان نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’انڈیا کی ایاز صادق کے بیان پر خوشی انتہائی پریشان کُن ہے۔ شاہ محمود قریشی کو اس کا جواب دینا ہو گا کیونکہ یہ قومی سلامتی کا مسئلہ ہے۔‘

ایک صارف نے لکھا کہ ’ن لیگ عمران خان کی نفرت میں اتنا نیچے گر چکی ہے کہ اب اسے ملک کی کوئی فکر نہیں ہے۔ ہمارے خفیہ اداروں کو چاہیے کے وہ اس ملک مخالف نظریے کے خلاف بات کریں۔‘

اکثر صارفین نے ایاز صادق اور ان کی جماعت کو بھی ’غدار‘ قرار دیا اور ان کے خلاف کارروائی کرنے کی بات کی۔

بابر حیات نامی ایک صارف نے لکھا: 'بیچارے انڈین صارفین ایاز صادق کے بیان پر خوشیاں منا رہے ہیں لیکن اس بات کو نظر انداز کر رہے ہیں کہ وہ حزبِ اختلاف میں ہیں اور انھوں نے ایسا اپنی بدعنوانی کو چھپانے کے لیے کر رہے ہیں۔'

ملک اچکزئی نامی ایک صارف نے ایاز صادق کا دفاع کیا اور کہا کہ بطور رکنِ پارلیمان انھیں ابھینندن سے متعلق صورتحال کی وضاحت کرنے کا پورا حق ہے۔

ابھینندن کی رہائی سے متعلق 'سچ' سامنے آ گیا

پاکستان

،تصویر کا ذریعہTwitter/@IndiaToday

اُدھر انڈیا میں ایاز صادق کے اس بیان کو ’دھماکہ خیز‘ انکشاف کہہ کر دکھایا گیا اور کہا گیا کہ وزیرِ خارجہ کو ابھینندن کی رہائی کے لیے سیاسی رہنماؤں کے سامنے گڑگڑانا پڑا۔

انڈین میڈیا کی جانب سے اسے ابھینندن کی رہائی سے متعلق حقائق کے طور پر بھی پیش کیا گیا۔

اکثر صارفین نے راہل گاندھی کو ٹیگ کیا اور ان کی جانب سے نریندر مودی پر اس واقعے سے متعلق کی جانے والی تنقید پر جواب مانگا۔

اکثر انڈین صارفین نے پاکستانی رہنماؤں کے لیے ’ڈرپوک‘ کا لفظ بھی استعمال کیا اور اس کشیدگی میں اپنی فتح کے بارے میں بات بھی کی۔

ایک انڈین صارف نے لکھا کہ ابھینندن سے متعلق یہ بیان اب پاکستان کی پارلیمان میں دیا گیا ہے اور اب یہ ریکارڈ پر موجود ہے۔

ایک اور صارف نے لکھا کہ ’میں وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کا مداح تو نہیں ہوں، لیکن میرے نزدیک بھی ابھینندن کو رہا کرنا ہی صحیح فیصلہ تھا۔‘