قراقرم کے خاموش اور پُرخطر راستوں کی مسافر وہ آخری مویشی بان خواتین جن کی زندگیاں کسی پہیلی سے کم نہیںاُس سال جاڑے کے دن جلدی ہی آ گئے تھے۔ گھاس زرد پڑنا شروع ہوئی اور چند ہی دنوں میں اِس قدر خشک ہو گئی کہ ننگے پَیر تنکے کاٹنے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے برف جمنے لگی۔ ہر صبح اس کی تہہ پچھلے دن کی نسبت موٹی اور سخت ہو جاتی۔ یہ انار بیگم کے لیے پیغام تھا کہ اب گھر واپس جانے کا وقت آ گیا ہے۔ وہ قراقرم کے پہاڑی سلسلے میں واقع شمشال وادی میں واخی کمیونٹی کی آخری مویشی بان خواتین میں سے ایک...
’اُن کی موت آج تک پہیلی ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آیا۔ ہمیں نہیں پتا کہ اُس سال کیا ہوا تھا۔ وہ بچے ایک، ایک کر کے ہمیں چھوڑتے گئے۔‘ انار بیگم آخری بار پامیر کے قبرستان میں کھڑی اپنے دو بچوں کی قبروں پر فاتحہ پڑھ رہی تھیں۔ مگر جو بات شمشال وادی کو واخان اور قراقرم کے پہاڑوں میں بسنے والی دیگر آبادیوں سے مختلف بناتی ہے وہ یہاں کی بزرگ خواتین ہیں۔ انھیں واخی مویشی بان کہا جاتا ہے۔
ہمارے ساتھ جانے والی مویشی بان خواتین میں بانو بیگم بھی شامل ہیں۔ بانو بیگم، جن کی عمر ستر سال سے زیادہ ہے، گذشتہ دو دہائیوں سے ہر سال ان پہاڑوں کا سفر کر کے پامیر پہنچتی ہیں۔ وہ اس راستے کی ہر مشکل سے بخوبی آگاہ ہیں۔ سطح سمندر سے تین ہزار میٹر کی بلندی پر اور شدید سرد موسم کے باعث یہاں کھیتی باڑی یا زراعت پر مکمل دارومدار نہیں کیا جا سکتا تھا۔ یوں شمشال کے مرد گرمیوں کے موسم میں وادی میں محدود کھیتی باڑی کرتے اور یہاں کی خواتین بھیڑ بکریوں کے ریوڑ لیے پامیر کی چراگاہ کی جانب چل پڑتیں۔
افروز نما جن کی عمر 67 سال ہے، شمشال کی پہلی مویشی بان خاتون ہیں جنھوں نے اس گاؤں میں سب سے پہلے جوتے پہنے۔ انھیں یاد ہے کہ کیسے اُن کے جوتوں نے علاقے کے لوگوں کو حیران کر دیا تھا۔ ’یہ راستہ بہت خراب تھا۔ پہلے تو ہم جو ٹریک استعمال کرتے تھے وہ دراصل یاک کے لیے بنا ہوا تھا۔ وہ اس کی نسبت زیادہ خطرناک، مشکل اور لمبا تھا۔‘ انار بیگم نے پرانے راستے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا۔
’پہلے تو ہمارے پاس بہت سارے جانور ہوتے تھے۔ اتنے زیادہ کہ ہم انھیں چھوٹے چھوٹے ریوڑ بناتے اور آپس میں تقسیم کر دیتے۔ ہم عورتوں کی تعداد بھی خاصی ہوتی تھی۔ دو یا تین عورتیں ایک چھوٹے ریوڑ کی دیکھ بھال کرتیں‘۔ بانو نے مجھے یہ سمجھاتے ہوئے بتایا کہ اتنے طویل اور مشکل ٹریک کے دوران کیسے ہزاروں جانوروں کی حفاظت کی جاتی تھی۔ہمارے اس سفر میں بانو کے بیٹے وزیر بھی اپنی والدہ کے ہمراہ پامیر کے سبزہ زار تک گئے۔ انھیں فکر تھی کہ ان کی والدہ معمر ہیں اور راستے میں وہ کسی پریشانی کا شکار ہو سکتی...
جیسے جیسے بلندی بڑھتی جاتی ہے، آکسیجن میں کمی آتی ہے اور سانس لینے میں مشکل ہوتی ہے۔ یہاں موسم کا بھی اپنا ٹائم ٹیبل ہے جس کی کوئی پیشگوئی نہیں کی جا سکتی۔ بارش، برفباری اور سلگا دینے والی گرمی، یہ سب ہی پکے ساتھی معلوم ہوتے ہیں اور ان سب کے بیچ لینڈسلائیڈز، یہ وہ خطرہ تھا جس کے لیے ہم تیار نہیں تھے۔
بانو بتاتی ہیں کہ ’راستہ بند ہونے کا ڈر، ایک مسلسل خوف تھا۔ لینڈ سلائیڈنگ ہوتی تھی، جو بہت خطرناک تھی۔ اس کی زد میں جانور بھی آتے تھے اور ہم بھی۔ جو پرانا راستہ ہم استعمال کرتے تھے۔‘ان خواتین کے ساتھ آنے والے مویشی جب بھاگتے ہیں تو پتھریلے پہاڑوں پر ارتعاش پیدا ہوتا ہے، یہاں بکھرے پتھر گرنا شروع ہوتے ہیں اور ہر طرف گرد پھیل جاتی ہے۔ یہاں ان پتھروں سے بچنے کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ یہ مویشی بان ایسی صورتحال میں انتظار کرتی ہیں اور جب ان پتھروں کو صبر آ جائے تو یہ واپس اپنا سفر شروع کر دیتی ہیں...
یہاں آٹھ گھنٹے کا سفر کر کے افغانستان کی جانب سرحد سے تین یاک پہنچے اور ہمیں بتایا گیا کہ اب آگے کا سفر ہم ان پر بیٹھ کر کریں گے۔ یاک کی سواری انتہائی مشکل ہے۔ ایک گھنٹے کی سواری کے بعد میں نے پیدل چلنا ہی مناسب سمجھا اور یوں باقی کا سفر شجراب کی چراگاہ میں پہنچ کر ختم ہوا جہاں ہم نے اس سفر کی آخری رات گزار کر اگلی صبح پامیر کی جانب روانہ ہونا تھا۔شجراب چراگاہ کو چھوٹی چراگاہ بھی کہا جاتا ہے۔ اگر پامیر میں موسم شدید خراب ہو جائے تو یہ خواتین ماضی میں اپنے جانوروں کے ہمراہ یہیں آتی تھیں۔...
پامیر کی چراگاہ میں تین رانچز ہیں۔ ان میں سے ایک میں یاک رکھے جاتے ہیں جبکہ دوسرے دونوں میں بھیڑ بکریاں۔ ماؤں اور بچوں کو علیحدہ کیا جاتا ہے تاکہ وہ تمام دودھ نہ پی لیں۔ ہر کمرے کے باہر لکڑی کے دروازے پر ایک تالا لگا ہے۔ بیشتر کو اب زنگ لگ چکا ہے، کئی ایسے ہیں جن پر پلاسٹک کے شاپر چڑھے ہیں۔ دروازوں پر پڑے یہ تالے واخی مویشی بانوں کے منفرد طرز زندگی کے خاتمے کا نشان ہیں۔
سولہ ہزار فٹ کی بلندی پر سخت سرد موسم میں چھتوں پر کھلے آسمان تلے رات گزارنا آسان نہیں تھا۔ وہ مویشیوں کے رانچ کے گرد آگ لگا کر دھواں پیدا کرتیں تاکہ بھیڑیے خوف سے آگے نہ بڑھیں۔ ان خواتین نے ان جانوروں کو پھنسانے کے لیے ’ٹریپ‘ بھی تعمیر کر رکھے تھے۔ ان میں سے تین اب بھی موجود ہیں۔لیکن حملے جاری رہتے۔ بعض اوقات ان خواتین کو بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑتا۔ انار بیگم نے کئی ایسے واقعات کا ذکر کیا جب ان جنگلی جانوروں نے ان کے مویشیوں پر حملے کیے اور ان کے سینکڑوں جانوروں کو ہلاک کر...
گرمیوں کے موسم میں واخی مویشی بان خواتین جاڑے کے شدید موسم کی تیاری کرتی تھیں۔ بانو بتاتی ہیں کہ ان کے دن رات سردیوں کے لیے خوراک تیار کرتے گزرتے۔ ’ہم مل کر کام کرتے اور جانوروں کا دودھ جمع کرتے۔ پھر ہم دہی اور دیگر ڈیری مصنوعات بناتے۔ ہم گاؤں لے جانے کے لیے مختلف چیزیں بناتے تھے۔ ہم اپنے جانوروں کی حفاظت بھی کرتے اور اس کے ساتھ دیگر تمام کام بھی کرتے تھے۔ ہمیں کبھی ایسا محسوس نہیں ہوا کہ ہمیں یہاں کوئی مسئلہ یا کسی چیز کی کمی ہے اور وقت پَر لگا کر اڑتا...
پاکستان تازہ ترین خبریں, پاکستان عنوانات
Similar News:آپ اس سے ملتی جلتی خبریں بھی پڑھ سکتے ہیں جو ہم نے دوسرے خبروں کے ذرائع سے جمع کی ہیں۔
ذریعہ: ExpressNewsPK - 🏆 13. / 53 مزید پڑھ »
ذریعہ: arynewsud - 🏆 5. / 63 مزید پڑھ »
ذریعہ: arynewsud - 🏆 5. / 63 مزید پڑھ »
ذریعہ: BBCUrdu - 🏆 11. / 59 مزید پڑھ »
ذریعہ: arynewsud - 🏆 5. / 63 مزید پڑھ »
ذریعہ: ExpressNewsPK - 🏆 13. / 53 مزید پڑھ »