جسٹس فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں حلف کی پاسداری کی جاتی تو ملک بلکل مختلف ہوتا

جسٹس فائز عیسیٰ

،تصویر کا ذریعہSupreme Court of Pakistan

سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ اگر پاکستان میں حلف کی پاسداری کی جاتی تو آج ملک بلکل مختلف حالت میں ہوتا۔

نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق پیر کو سپریم کورٹ رپورٹرز ایسوسی ایشن کی حلف برداری کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ پاکستان میں ابھی بھی صحافت آزاد نہیں ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ کسی کو ’یکطرفہ خبریں اور سلیکٹڈ پیغام‘ چلانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

واضح رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباد کے مقام پر ایک مذہبی جماعت کے دھرنے سے متعلق از خود نوٹس کے فیصلے میں بھی وزارت دفاع کو ان فوجی اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرنے کے بارے میں کہا تھا جن کے مطابق جنہوں نے اپنے ’حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاسی معاملات میں مداخلت کی تھی‘۔ اس فیصلے میں پاکستان میں میڈیا پر لگائی جانے والی پابندیوں کا بھی ذکر کیا گیا تھا۔

اس فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل بھی دائر کی گئی تھی جو ایک سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوسکی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

پیر کو حلف برداری کی اس تقریب میں اپنے خطاب کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’آزاد صحافت جمہوریت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے‘۔

اُنھوں نے کہا کہ ’آزادی صحافت کے بغیر قوم بھٹک سکتی ہے اور ملک کھو سکتے ہیں‘۔

اپنے خطاب کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اُنھوں نے بطور وکیل 1991 میں ایک مضمون میں سرکاری ٹی وی کے خبرنامے کے بارے میں ایک مضمون لکھا تھا۔

ان کے مطابق اس خبرنامے میں اس وقت کے وزیر داخلہ کے اپوزیشن لیڈر پر الزامات ٹی وی پر دکھائے گئے لیکن اپوزیشن لیڈر کا جواب نہیں دکھایا گیا۔ اُنھوں نے کہا کہ افسوس ہے کہ پاکستان میں آج بھی ایسا ہو رہا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ بین الاقوامی رپورٹس کے مطابق پاکستان میں صحافت آزاد نہیں اور رپورٹس کے مطابق آزاد صحافت میں پاکستان نچلے درجات میں ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ سنہ 2017 اور سنہ 2018 میں پاکستان فریڈم انڈیکس میں 180 ممالک میں 139 نمبر تھا جو 2019 میں 142 نمبر پر پہنچ گیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’آزاد صحافت جمہوریت کی ریڑ کی ہڈی ہے، آزاد صحافت حکومت کی غلط کاریوں اور کرپشن کو آشکار کرتی ہے‘۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ اگر ان پر تنقید ہو تو وہ برا نہیں مانتے۔ اُنھوں نے کہا کہ اُنھوں نے فریڈم آف دی پریس کے نام سے کتاب لکھی تھی اس کے علاوہ آئین کا آرٹیکل 19 آزادی اظہار رائے کا حق دیتا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا اپنے خطاب میں کہنا تھا کہ عوامی مفاد کے تمام معاملات میں آئین معلومات تک رسائی کا حق دیتا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ امریکی سپریم کورٹ نے 19 سال قبل آزاد صحافت پر فیصلہ دیا تھا۔ اُنھوں نے کہا کہ جب لوگ پریس کی آزادی کے لیے جنگ لڑتے ہیں، اس کا مطلب ہوتا ہے وہ اپنے حقوق کے لیے جنگ لڑتے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ ضروری ہے کہ ناانصافی اور بدعنوانی کو سامنے لایا جائے۔