بیروت: ’بکھرے ہوئے شیشے، کانپتی عمارتیں اور زوردار دھماکہ‘

A migrant worker reacts in shock following an explosion at the Beirut Port

،تصویر کا ذریعہEPA

،تصویر کا کیپشندھماکے کے نتیجے میں بیروت کی گلیوں میں افراتفری اور خوف کا عالم ہے

'سائرن زور زور سے بج رہے تھے، ایمبولنس بھاری ٹریفک سے گزر کر دھماکے کے مقام تک پہنچنے کی کوشش کر رہی تھی، اور کانچ کے ٹکڑے بیروت کی تمام سڑکوں پر بکھرے ہوئے تھے اور ٹریکٹرز شاہراہوں سے ملبے کو صاف کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔'

یہ مناظر بیان کیے بی بی سی کے بیروت میں نامہ نگار رامی رحیم نے جو کہتے ہیں کہ 'بیروت میں اس سے زیادہ برا وقت نہیں ہو سکتا تھا ایسا واقعہ رونما ہونے کے لیے۔'

لبنان کے دارالحکومت بیروت میں بندرگاہ کے علاقے میں منگل کی شام ہونے والے دھماکے نے پورے شہر کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

دھماکے کے نتیجے میں شہر میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے اور اس واقعے میں 75 سے زیادہ افراد کی ہلاکت اور چار ہزار سے زیادہ کے زخمی ہونے کی تصدیق کی گئی ہے۔

دھماکہ اتنا شدید تھا کہ اس نے نہ صرف بندرگاہ کے نواحی علاقے کو تباہ و برباد کر دیا بلکہ دس کلومیٹر دور تک اس کے اثرات محسوس کیے گئے۔

YouTube پوسٹ نظرانداز کریں, 1

مواد دستیاب نہیں ہے

YouTube مزید دیکھنے کے لیےبی بی سی. بی بی سی بیرونی سائٹس پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے.

YouTube پوسٹ کا اختتام, 1

مقامی میڈیا کے مطابق کئی افراد تباہ ہونے والی عمارتوں کے ملبے کے نیچے دب گئے اور متاثرین کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ ہسپتالوں میں بستروں کی کمی ہو گئی تھی۔

ایک عینی شاہد نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'میں جہاں ہوں وہاں تمام عمارتیں تباہ ہو گئی ہیں اور میں کانچ اور ملبے کے بیچ سے گزر رہا ہوں اور یہاں مکمل تاریکی ہے۔'

رامی رحیم کہتے ہیں کہ لبنان بہت دشوار مرحلے سے گزر رہا ہے اور پہلے ہی یہاں کے ہسپتال کورونا وائرس کے متاثرین کی وجہ سے دباؤ میں ہے اور اب اس دھماکے کے بعد وہاں اور رش بڑھ گیا ہے۔ ’ہزاروں لوگ بے گھر ہو گئے ہیں۔ ایک لمحے میں ان کا سب کچھ چلا گیا ہے۔'

صحافی محمد نجیم نے بتایا کہ جب دھماکہ ہوا تو وہ گیارہویں منزل پر موجود تھے۔

A man carries away an injured girl in Beirut

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشندھماکے کے بعد ایک شخص ایک زخمی لڑکی کو طبّی امداد فراہم کرنے کے لیے اٹھا کر لے جا رہا ہے

ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے دو بڑے دھماکوں کی آواز سنی۔ میں سمجھا کہ عمارت زمیں بوس ہو رہی ہے۔ میں بچنے کی کوشش کر رہا تھا۔ میں ٹھیک ہوں لیکن میرے پاؤں سے تھوڑا سا خون نکل رہا ہے۔ یہ سب مجھے سنہ 2000 کی یاد دلا رہا ہے جب اسرائیل لبنان پر بمباری کر رہا تھا اور میں وہیں متاثرہ علاقے کے قریب موجود تھا اور میں سمجھا تھا کہ میں مرنے والا ہوں ایسا ہی میں نے آج بھی محسوس کیا۔‘

ایک عینی شاہد لعیت بلاؤت نے بتایا کہ دھماکے کے بعد 'ہر کوئی زمین پر گر گیا۔ مجھے یاد ہے میں نے جب آنکھیں کھولیں تو زمین پر مجھے دھول اور تباہ شدہ عمارتوں کا ملبہ دکھائی دے رہا تھا۔

’یہ سب اس مال میں اڑ رہا تھا جہاں ہم لوگ موجود تھے۔ اور پھر اچانک شیشے ٹوٹ گئے اور ایسے الارم بجنا شروع ہوئے جیسے جنگ کے وقت ہوتے ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ مال کے مرکزی دروازے پر موجود شیشے بھی ٹوٹ گئے اور فرش پر خون تھا۔ وہاں پارکنگ میں دھماکے کی شدت زیادہ تھی ہم نے دیکھا کہ ایک خاتون اس کی شدت سے کئی میٹر دور جا گری۔

An injured man is evacuated from the scene

،تصویر کا ذریعہEPA

،تصویر کا کیپشنجائے وقوعہ سے ایک زخمی کو ہسپتال منتقل کیا جا رہا ہے

صحافی سونیوا روز کہتی ہیں کہ بیروت میں شام کے وقت گاڑی چلاتے ہوئے سڑکوں پر گھمسان کی حالت تھی۔

'سڑکوں پر کانچ بکھرا ہوا تھا اور ایمبولنس کا وہاں سے گزرنا بہت مشکل تھا۔ مکانات تباہ ہو گئے تھے۔ جب میں بندرگاہ پہنچی تو وہاں پر فوج موجود تھی جس نے مجھے آگے جانے سے روک دیا کہ ممکن ہے کہ ایک اور دھماکہ ہو جائے۔'

سنیوا کہتی ہیں کہ وہاں پر سیاہ دھواں چھایا ہوا تھا اور پیدل چلنا بہت مشکل تھا۔ 'لوگ خون میں لت پت تھے۔ میں نے ایک عمر رسیدہ خاتون کو دیکھا جن کا ایک ڈاکٹر علاج کر رہا تھا۔ وہ بس اپنے گھر سے ابتدائی طبی امداد کا سامان لے کر نکلا اور ان کے پاس پہنچا۔ گاڑیاں مکمل طور پر تباہ ہو گئی تھیں اور مکانات مہندم ہو گئے تھے۔'

ہادی نصراللہ دھماکے کے وقت ٹیکسی میں سفر کر رہے تھے۔ انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انھوں نے آگ دیکھی لیکن انھیں اندازہ نہیں تھا کہ ایک دھماکہ ہونے والا ہے۔

'ایک دم میرے کان بند ہو گئے اور میں سمجھ گیا کہ کچھ بہت غلط ہوا ہے۔ اچانک گاڑی کے تمام شیشے ٹوٹ گئے، ہمارے آس پاس گاڑیاں، عمارتیں، ہمارے چاروں طرف بس کانچ گر رہا تھا عمارتوں سے۔'

ہادی کہتے ہیں کہ پورے شہر میں لوگ ایک دوسرے کو فون کر رہے تھے، اور تمام لوگ بس ایک ہی بات کر رہے تھے: بکھرا ہوا شیشہ، کانپتی عمارتیں اور زوردار دھماکہ۔

'ہم سب سکتے ہیں تھے کیونکہ ایسا جب عام طور پر ہوتا تو صرف ایک علاقے تک محدود رہتا ہے۔ لیکن یہ تو پورے بیروت میں محسوس ہوا، بلکہ بیروت کے باہر بھی۔'