عذیر بلوچ جے آئی ٹی رپورٹ: آصف زرداری کا ذکر شامل نہیں، ارشد پپو سمیت 198 قتل کے واقعات میں ملوث ہونے کا انکشاف

  • ریاض سہیل
  • بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
عزیر بلوچ

،تصویر کا ذریعہAFP

سندھ حکومت نے لیاری گینگ وار کے اہم کردار عذیر بلوچ سے تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ چھ جولائی کو عام کرنے کا اعلان کیا ہے۔

بی بی سی کو اس رپورٹ کی دستخط شدہ کاپی حاصل ہوئی ہے، جس میں عذیر بلوچ کے حوالے سے تو بہت سے انکشافات کیے گئے ہیں لیکن سابق صدر آصف علی زرداری سمیت پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کے ملوث ہونے کا کوئی ذکر شامل نہیں ہے۔

خیال رہے کہ حکومتی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے کچھ رہنماؤں نے نجی ٹی وی چینلز کے پروگراموں میں پیپلز پارٹی اور آصف زرداری کے بارے میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ ان کے بارے میں اس جے آئی ٹی رپورٹ میں بہت کچھ ہے، جس کی وجہ سے سندھ حکومت اس رپورٹ کو عام نہیں کر رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

اس رپورٹ کی کچھ غیرمصدقہ نقول بھی میڈیا پر سامنے آئی ہیں، جن میں آصف زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کے کردار سے متعلق بھی دعوے کیے گئے۔

تحقیقاتی رپورٹ میں عذیر بلوچ کے حوالے سے یہ لکھا گیا ہے کہ وہ کامیابی سے اپنی مرضی کے پولیس افسران کے تبادلے کرواتے رہے مگر یہ تفصیلات شامل نہیں ہیں کہ یہ تبادلے کس شخصیت کی منظوری سے ہوتے رہے۔

لیاری آپریشن

،تصویر کا ذریعہAFP

،تصویر کا کیپشنرپورٹ میں عزیر بلوچ کے حوالے سے یہ لکھا گیا ہے کہ وہ کامیابی سے اپنی مرضی کے پولیس افسران کے تبادلے کراتا رہا مگر یہ تفصیلات شامل نہیں ہیں کہ یہ تبادلے کس شخصیت کی منظوری سے ہوتے رہے

عذیر بلوچ کے بارے میں انکشافات

پولیس کے علاوہ پاکستان کے انٹیلیجنس اداروں کے نمائندوں پر مشتمل جے آئی ٹی نے اپریل 2016 میں عذیر جان بلوچ کا بیان ریکارڈ کیا تھا۔

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں خوف کی علامت عذیر بلوچ کی جے آئی ٹی رپورٹ میں ایکشن، تھرل اور سسپنس سب ہی کچھ ہے جو اس کے بیان کو بالی وڈ ایکشن مووی کا سکرپٹ بنا دیتی ہے۔

’پولیس موبائلوں میں سوار پولیس افسر اور گینگسٹر نے تین لوگوں کو اغوا کیا، ان تین لوگوں کو ایک گودام میں قتل کر کے ان کی لاشوں کو آگ لگا دی اور باقیات گٹر میں پھینک دیں۔‘

خیال رہے کہ یہ بالی وڈ کی انڈر ورلڈ پر بنی ہوئی کسی فلم کا سین نہیں ہے بلکہ لیاری امن کمیٹی کے سربراہ عذیر جان بلوچ کا اعترافی بیان ہے، جو اس نے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کو دیا۔

جن تین لوگوں کو قتل کیا گیا ان میں ایک جرائم پیشہ گروپ کے سرغنہ ارشد پپو اور اس کے دو ساتھی شامل تھے اور ان پر عذیر بلوچ کے والد کے قتل کا الزام تھا۔

والد کے قتل کا بدلہ

جے آئی ٹی کے مطابق عذیر بلوچ 10 اکتوبر 1977 کو لیاری کے علاقے سنگو لائن میں پیدا ہوئے اور مقامی کالج سے انٹر تک تعلیم حاصل کی۔ عذیر سنہ 2000 میں اپنے والد فیض محمد بلوچ کے ٹرانسپورٹ کے کاروبار میں شامل ہوئے۔

عذیر بلوچ نے جنرل پرویز مشرف کے پہلے بلدیاتی انتخابات میں 2001 میں لیاری کے ٹاؤن ناظم کا الیکشن لڑا لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔

عذیر کی زندگی میں اس وقت تبدیلی آئی جب سنہ 2003 میں ان کے والد فیض محمد بلوچ کو اغوا کے بعد قتل کردیا گیا اور بدلہ لینے کے لیے عذیر نے رحمان ڈکیت کے گینگ کو جوائن کر لیا۔

عذیر بلوچ کے والد کے قتل کا الزام ارشد پپو گینگ پر آیا تھا۔

ارشد پپو

،تصویر کا ذریعہSindh Poiice

،تصویر کا کیپشنارشد پپو کو لیاری کی گلیوں میں ایک مشتعل ہجوم نے مار مار کر ہلاک کیا تھا

ارشد پپو کا انجام

عذیر بلوچ نے جے آئی ٹی کو بتایا ہے کہ اس نے پولیس کی مدد سے ارشد پپو کو مار کر اپنے والد کے قتل کا بدلہ لیا۔

جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق سنہ 2013 کو 16 اور 17 مارچ کی شب تین پولیس انسپکٹروں، دیگر اہلکاروں اور اپنے کارندوں کے ساتھ ارشد پپو، یاسر عرفات اور شیرا پٹھان کو اغوا کر لیا۔ یہ واردات پولیس موبائلوں کے ذریعے کی گئی جن کا انتظام انسپکٹر جاوید نے کیا تھا۔

جے آئی ٹی کو دیے گئے بیان میں عذیر نے بتایا کہ ان تینوں کو آدم ٹی گودام لے جایا گیا جہاں انھیں قتل کیا گیا اور ان کی لاشوں کو آگ لگا دی اور باقیات کو گٹر میں پھینک دیا گیا۔

اپنے سب سے بڑے مخالف ارشد پپو کو راستے سے ہٹانے کے بعد عذیر بلوچ خود لیاری کا کنگ بن گیا۔ جے آئی ٹی کے مطابق عذیر سنہ 2006 سے لے کر سنہ 2008 تک مختلف الزامات میں سینٹرل جیل میں قید رہا۔

سنہ 2008 میں رحمان ڈکیت کی پولیس مقابلے میں ہلاکت کے بعد عذیر بلوچ نے گینگ کی کمان سنبھالی اور پیپلز امن کمیٹی کی بنیاد رکھی۔

قتل کے 198 واقعات

جے آئی ٹی کے مطابق عذیر بلوچ نے بالواسطہ یا بلاواسطہ قتل کے 198 واقعات میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ ان ہلاک ہونے والوں میں گینگ وار کے علاوہ لسانی اور سیاسی بنیادوں پر کیے گئے قتل بھی شامل ہیں۔

عذیر بلوچ نے بتایا کہ سنہ 2012 کو ڈالمیا سے حاجی اسلم اور اس کے دو بیٹوں کو طلب کیا اور انھیں بابا لاڈلا کے حوالے کیا تاکہ منشیات فروش حنیف بلوچ کے قتل کا بدلہ لے سکیں۔ بعد میں اس کے ساتھیوں نے تینوں کو قتل کر کے لاش نامعلوم جگہ پر دفنا دی۔

کباڑی مارکیٹ میں ہونے والی ہلاکتوں کا اعتراف

عذیر بلوچ نے شیرشاہ کباڑی مارکیٹ میں حملے اور ہلاکتوں کا بھی اعتراف کیا ہے۔ خیال رہے کہ وہاں 11 تاجروں کے قتل کے بعد شہر میں ہنگامہ آرائی شروع ہو گئی تھی اور تشدد کے واقعات میں مزید 14 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

عذیر بلوچ نے جے آئی ٹی کو بتایا ہے کہ 19 اکتوبر 2010 کو کباڑی مارکیٹ میں اس کے کارندوں جبار لنگڑا، نثار، فدا اور دیگر نے ایک سیاسی جماعت کے 11 ہمدردوں کو قتل کیا تھا، جو اسی جماعت کو چندہ دیتے تھے۔

لیاری پولیس

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشنعزیر بلوچ نے شیرشاہ کباڑی مارکیٹ میں حملے اور ہلاکتوں کا بھی اعتراف کیا ہے

پولیس اور رینجرز پر حملے

عذیر بلوچ نے چار پولیس اہلکاروں اور دو رینجرز اہلکاروں کے قتل کا بھی اعتراف کیا ہے۔ جے آئی ٹی کو عذیر نے رینجرز کے حوالدار منیر اور حوالدار اعجاز کے بارے میں بتایا ہے کہ اسے مارچ 2013 میں شیر محمد شیخ عرف شیرو نے جو ایم کیو ایم الطاف کا کارکن تھا، بتایا کہ اس نے رینجرز کے دو اہلکاروں کو اغوا کیا ہے، جو اس کے گینگ کے بارے میں معلومات جمع کر رہے تھے اور ان کا تعلق رینجرز کے انٹیلیجنس ونگ سے ہے۔

عذیر بلوچ کے بیان کے مطابق اس نے دو روز انتظار کرنے کا حکم دیا۔ اس دوران رینجرز حکام نے اس سے رابطہ کر کے لاپتہ اہلکاروں کے بارے میں معلومات حاصل کیں لیکن اس نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ اس کے بعد ملزم نے شیرو کو دونوں اہلکاروں کو ہلاک کرنے کا حکم دیا اور کہا کہ یہ قتل اس طرح کیے جائیں کہ لگے کہ ایم کیو ایم اس میں ملوث ہے۔

2010 میں پولیس تھانے کلری بغدادی پر حملہ

عذیر کے مطابق انسپکٹر آصف منور نے بھتہ بڑھانے کے لیے شیراز کامریڈ کے جوئے کے اڈے پر چھاپا مارا تھا جس پر اس نے انسپکٹر آصف منور کو ٹیلیفون کیا اور کہا کہ ’چھاپا کیوں مارا ہے تو اس نے بدتمیزی سے جواب دیا‘۔

اس پر عذیر بلوچ نے اپنے کارندوں کو تھانے پر حملہ کرنے کو کہا جس میں پولیس کی بکتربند کو نقصان پہنچا۔

سنہ 2010 میں بھتے کے معاملے پر انسپکٹر چاکیواڑہ بابر ہاشمی اور ڈی ایس پی سرور کمانڈو نے جبار لنگڑا کے اڈے پر چھاپا مارا، جس کے بعد عذیر بلوچ کے ساتھیوں نے چاکیواڑہ اور کلاکوٹ کے تھانوں اور پولیس کوارٹرز پر حملہ کیا۔

پولیس تعلقات اور آپریشن

عذیر بلوچ نے جے آئی ٹی کو بتایا ہے کہ اس کے پولیس کے ساتھ گہرے تعلقات بھی رہے ہیں۔ اس نے ایس پی اقبال بھٹی کو ٹی پی او لیاری تعینات کرایا اس کے علاوہ سات انسپکٹرز اور سب انسپکٹرز کو لیاری کے مختلف تھانوں پر ایس ایچ او تعینات کرایا تاکہ وہ اس کی اور اس کے کارندوں کی مدد کرسکیں، تاہم جے آئی ٹی میں یہ واضح نہیں ہے کہ کس کے ذریعے یہ تبادلے ہوئے۔

عذیر بلوچ نے جے آئی ٹی کو بتایا ہے کہ چھ نومبر 2012 کو اس کے دوست امین بلیدی نے لیاری ٹاؤن کے نائب ناظم ملک محمد خان کو لی مارکیٹ کے قریب قتل کر دیا کیونکہ وہ بلوچ مخالف بیانات دیتا تھا۔

ملک محمد خان کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے تھا، ان کی ہلاکت کے بعد لیاری میں آپریشن شروع ہوا۔

عذیر بلوچ نے چیل چوک آپریشن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس نے اپنے کارندوں کو حکم دیا کہ پولیس کو چیل چوک تک محدود کریں، وہاں فائرنگ کے تبادلے میں چار، پانچ پولیس اہلکار اور عام شہری ہلاک اور زخمی ہو گئے تھے۔

عزیر بلوچ

،تصویر کا ذریعہPakRangers

ایرانی شہریت کا اعتراف

عذیر بلوچ نے دوران تفتیش ایرانی شہریت رکھنے کا بھی اعتراف کیا ہے۔

جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق عذیر نے اقرار کیا ہے کہ ان کی رشتے دار خاتون عائشہ ایران کی مستقل رہائشی ہیں، جن کے پاس پاکستان اور ایران دونوں کی شہریت ہے۔

رپورٹ کے مطابق مذکورہ خاتون کا بیٹا 14 سال کی عمر میں انتقال کر گیا تھا اور سنہ 1987 میں ملزم کی رشتے دار نے ملزم کی تصویروں سے ایران میں اپنے بیٹے کے نام سے جعلی برتھ سرٹیفیکٹ بنوایا۔

ملزم 2006 میں لیاری میں آپریشن کی وجہ سے کزن کے ہمراہ ایران چلا گیا جہاں اس نے اپنا ایرانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بھی بنوایا۔

عذیر بلوچ نے جے آئی ٹی کو بتایا ہے کہ سنہ 2014 میں ایران کے شہر چاہ بہار میں انھیں حاجی ناصر نامی جاننے والے نے پیشکش کی کہ اس کے ایرانی انٹیلیجنس سے اچھے تعلقات ہیں، وہ ان کی ملاقات کا انتظام کر سکتا ہے جس پر ملزم کی مرضی سے اس ملاقات کا انعقاد کرایا گیا جس میں بقول عذیر اسے ایرانی انٹیلیجنس حکام نے پاکستان کے فوجی افسران اور تنصیبات کی معلومات فراہم کرنے کے لیے کہا تھا۔

جے آئی ٹی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ عذیر بلوچ فوجی تنصیبات اور افسران کی خفیہ معلومات اور نقشے غیر ملکی ایجنسی کے افسران کو فراہم کرنے میں ملوث ہیں اسی لیے سفارش کی جاتی ہے کہ اس کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جائے۔

اس سفارش کے بعد ہی عذیر بلوچ پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلا اور اسے بارہ سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

پیپلز پارٹی

پیپلز پارٹی سے قربت اور دوری

یاد رہے کہ لیاری گینگ وار کے مرکزی کردار رحمان ڈکیت کی ایک مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کے بعد عذیر بلوچ کا نام سامنے آیا تھا اور انھوں نے لیاری امن کمیٹی کی ذمہ داری سنبھالی تھی، جو پاکستان پیپلز پارٹی کی ہمدرد سمجھی جاتی تھی۔

پیپلز پارٹی دور میں سندھ کے وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کھل کر اس کی حمایت کرتے تھے۔

امن کمیٹی پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کی اتحادی حکومت میں تنازع کی وجہ بنی رہی، جسے بعد میں وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے کالعدم قرار دے دیا تھا۔

لیاری میں عذیر بلوچ نے پاکستان پیپلز پارٹی کے متبادل اپنی سیاسی پوزیشن بنانے کی کوشش کی اور ان کے نامزد کیے گئے امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ دیے گئے۔

وہ پیپلز پارٹی کے قریب رہے اور ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی ناراضی کے ساتھ وہ بھی دور ہوتے گئے، ایسی کئی تصاویر سامنے آئیں جن میں وہ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے ساتھ موجود دیکھے گئے یا یہ رہنما عذیر کی دعوت میں شریک ہوتے۔

جے آئی ٹی میں عذیر بلوچ کے جرائم کی معاونت اور تاوان کی وصولی وغیرہ کے تو اعتراف شامل ہیں لیکن کسی سیاسی شخصیت سے تعلقات یا ہدایات کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔