جج ارشد ملک ویڈیو سکینڈل: ’سابق وزیر اعظم نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں سزا سنانے والے جج نوکری سے برطرف کرنے کا فیصلہ‘

  • شہزاد ملک
  • بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
جج ارشد ملک

،تصویر کا ذریعہRehan Dashti

،تصویر کا کیپشناحتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے العزیزیہ سٹیل مل ریفرنس میں نواز شریف کو سزا سنائی تھی

لاہور ہائیکورٹ کی انتظامی کمیٹی نے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کو العزیزیہ سٹیل مل ریفرنس میں سزا سنانے اور فلیگ شپ ریفرنس میں بری کرنے والے جج ارشد ملک کو برطرف کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ محمد قاسم خان کی زیر صدارت انتظامی کمیٹی نے جمعے کو ارشد ملک کی نوکری سے برطرفی کی منظوری دی ہے۔

اس اجلاس میں لاہور ہائیکورٹ کے سات سینیئر ججوں جسٹس ملک شہزاد احمد خان، جسٹس شجاعت علی خان، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس علی باقر نجفی نے شرکت کی۔

یہ بھی پڑھیے

ارشد ملک نے دسمبر 2018 میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کو العزیزیہ سٹیل مل کے مقدمے میں سات سال قید کی سزا سنائی تھی۔ اس فیصلے کے بعد سابق حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز نے ان کی ایک مبینہ ویڈیو جاری کی تھی جس میں انھیں کہتے ہوئے سنا گیا کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کو العزیزیہ سٹیل ملز کے مقدمے میں سزا دینے کے لیے ان پر دباؤ تھا۔

اس معاملے کے سامنے آنے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ارشد ملک کو ان کے مس کنڈکٹ کی وجہ سے احتساب عدالت کے جج کے طور پر کام کرنے سے روکتے ہوئے اُنھیں لاہور ہائی کورٹ رپورٹ کرنے کا حکم دیا تھا۔

ارشد ملک ڈیپوٹیشن پر اسلام آباد میں تعینات ہوئے اور وہ لاہور ہائی کورٹ کے ہی ماتحت تھے۔

مذکورہ جج کی ویڈیو منظر عام آنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اُنھیں واپس لاہور ہائی کورٹ بھیجنے کی بجائے وفاقی وزارت قانون میں بطور او ایس ڈی رکھ لیا تھا جس پر سپریم کورٹ نے برہمی کا اظہار کیا تھا۔

ویڈیو سامنے آنے کے بعد ارشد ملک نے ایک بیانِ حلفی دیا تھا جس میں انھوں نے نواز شریف کے بیٹے سے ملاقات کا اعتراف کیا تھا۔

پاکستان کی سپریم کورٹ نے بھی اس معاملے پر فیصلے میں کہا تھا کہ ارشد ملک نے جو بیان حلفی جمع کروایا تھا وہ دراصل ان کا اعترافِ جرم تھا۔

مریم نواز

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنمسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز ایک پریس کانفرنس کے دوران ارشد ملک کی مبینہ خفیہ ویڈیو سامنے لائی تھیں

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ اُنھوں نے اپنے بیان حلفی میں مجرم نواز شریف کے بیٹے کے ساتھ ملاقات کا اعتراف کیا ہے اور اس پیش رفت کے بعد احتساب عدالت کے سابق جج نے اس سے متعلق اعلی حکام کو نہ ہی آگاہ کیا اور نہ ہی وہ خود عدالتی کارروائی سے الگ ہوئے۔

سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اس ویڈیو کے بارے میں درخواست کی سماعت کے دوران کہا تھا کہ ججز کے ’سر شرم سے جھک‘ گئے ہیں۔

سپریم کورٹ نے اس معاملے میں یہ بھی کہا تھا کہ چونکہ ارشد ملک لاہور ہائیکورٹ کے ماتحت ہیں اس لیے وہی ان کے خلاف کارروائی کا اختیار رکھتی ہے۔

اس معاملے پر بات کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج شاہ خاور کا کہنا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کی انضباطی کمیٹی کے فیصلے کے بعد ارشد ملک کی طرف سے دیے گئے فیصلوں پر اب سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ مذکورہ جج کے فیصلوں سے متاثرہ شخص/اشخاص اگر اعلی عدالتوں میں جانا چاہیں تو انُھیں وہاں سے ریلیف ملنے کا امکان ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ مذکورہ جج کے فیصلے کے خلاف سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے جو اپیل اسلام اباد ہائی کورٹ میں دائر کر رکھی ہے اس میں وہ اس فیصلے کے قانونی نکات کی بجائے پہلے جج کے کردار کو زیر بحث لے کر آئے ہیں۔

شہباز شریف کا خیرمقدم

پاکستان مسلم لیگ نواز کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے جج ارشد ملک کی برطرفی کے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے پر اظہار تشکر کرتے ہوئے کہا کہ ثابت ہو گیا ہے کہ جج نے انصاف پر مبنی فیصلہ نہیں دیا تھا اور تین بار وزیر اعظم منتخب ہونے والے شخص کو ناحق سزا دی۔

مسلم لیگ نواز کی جانب سے جاری کردہ ایک اعلامیے کے مطابق شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ’سچائی سامنے آنے پر انصاف کا تقاضا ہے کہ محمد نواز شریف کی سزا کو ختم کیا جائے۔‘

انھوں نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کی انتظامی کمیٹی کا فیصلہ دراصل نواز شریف کی بے گناہی کا ثبوت ہے۔