توہین مذہب کے الزام میں قید شگفتہ کوثر اور شفقت ایمینوئل کو اپنی اپیل کے فیصلے کا انتظار

  • سکندر کرمانی
  • بی بی نیوز
Shagufta Kausar and her husband Shafqat Emmanuel

،تصویر کا ذریعہFamily handout

،تصویر کا کیپشناس جوڑے پر سنہ 2014 میں توہین رسالت کا الزام لگا

شگفتہ کوثر اور ان کے شوہر شفقت ایمینوئل نے گذشتہ چھ برس جیل میں گزارے ہیں۔ یہ لوگ، انتظار کررہے ہیں کہ کب انھیں، توہینِ رسالت کے الزام میں ملنے والی موت کی سزا، کے خلاف اپیل کا فیصلہ سنایا جائے گا۔

یہ غریب مسیحی خاندان پاکستان کے شہر گوجرہ سے ہے اور بدھ کو انھیں لاہور ہائی کورٹ میں اپنی دائر کی گئی اپیل کے بارے میں فیصلہ سنایا جانا تھا۔ تاہم بدھ کے روز ایک مرتبہ پھر عدالت نے سماعت مؤخر کر دی ہے۔ اگلی سماعت کی تاریخ اب تک نہیں دی گئی ہے۔

ملزمان کو امید ہے کہ اُس سے ان کی پریشانی اور انتظار بالآخر ختم ہوگا۔

ان کے وکیل سیف الملوک نے توہینِ رسالت کے مقدے میں سزا پانے والی خاتون آسیہ بی بی کے مقدمے کی بھی پیروی کی تھی اور سزا کے خلاف اپیل میں فیصلہ آسیہ بی بی کے حق میں لینے میں کامیاب رہے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ جن شواہد کی بنا پر دونوں میاں بیوی پر مقدمہ چلا کر سزا دی گئی ہے، وہ ناقص ہیں۔

اسی بارے میں

لیکن ساتھ ہی انھوں نے یہ خبردار کیا کہ پاکستان میں جج اس طرح کے مقدمات میں ملزم کو بری کرنے سے 'ڈرتے' ہیں کہ کہیں وہ خود شدت پسندوں کا نشانہ نہ بن جائیں۔ اوپر سے کورونا وائرس کی وجہ سے اس وقت عدالتی نظام بھی سست ہے۔

اس جوڑے کو موت کی سزا سنہ 2014 میں ہوئی جب ان کے خلاف چلائے گئے مقدمے میں یہ الزام ثابت ہوا کہ جس موبائل نمبر سے مقامی مسجد کے امام کو پیغمبرِ اسلام کے بارے میں توہین آمیز میسیجز بھیجے گئے تھے وہ نمبر ان کے نام پر رجسٹر تھا۔

پاکستان میں توہینِ رسالت کی سزا موت ہے لیکن آج تک اس سزا پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ تاہم ماضی میں بہت سے لوگوں پر یہ الزام لگنے کے بعد مختلف مشتعل ہجوموں نے ان کا قتل کیا ہے۔

شگفتہ کے بھائی جوزف نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی بہن اور بہنوئی بے قصور ہیں اور انھیں یہ بھی نہیں پتا کہ آیا ان دونوں کے پاس اتنی تعلیم ہے بھی کہ وہ موبائل پر اس طرح کے میسج لکھ سکیں۔ شگفتہ ایک کرسچن سکول میں کیرٹیکر یا نگراں کی حیثیت سے کام کرتی تھیں جبکہ ان کے شوہر شفقت معذور ہیں۔

جوزف نے بتایا کہ جیل میں جب وہ شفقت سے ملنے گئے تو انھوں نے بتایا کہ ان پر تشدد کر کے ان سے جرم کا اعتراف کروایا گیا ہے۔

’انھوں نے مجھے بتایا کہ انھیں مار مار کر ان کی ٹانگ توڑ دی۔‘

Shagufta Kausar

،تصویر کا ذریعہFamily handout

،تصویر کا کیپشنشگفتہ کوثر ایک سکول میں ملازمت کرتی تھیں

اس جوڑے کے چار بچے ہیں اور وہ اب گہرے صدمے میں ہیں۔ جوزف کہتے ہیں 'وہ ہر وقت روتے ہیں اور اپنے والدین کو یاد کررہے ہیں، وہ ان سے دوبارہ ملنا چاہتے ہیں۔‘

انسانی حقوق کی تنظیموں کا مؤقف ہے کہ پاکستان میں توہینِ رسالت کے الزامات اکثر یا تو اپنی ذاتی دشمنیوں کا انتقام لینے کے لیے لگائے جاتے ہیں یا پھر اقلیتی برادریوں کو نشانہ بنانے کے لیے۔

شفقت اور شگفتہ کے وکیل نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی اپنے پڑوسیوں سے لڑائی ہوئی تھی اور ممکن ہے کہ انھوں نے شگفتہ کے نام پر سم کارڈ لے کر ان سے بدلہ لینے کے لیے یہ حرکت کی ہو۔

پاکستان میں توہین رسالت کے مقدمات میں سزا اکثر اعلی عدالتوں میں اپیل پر ختم کردی جاتی ہے۔ پچھلے سال ایک دہائی تک سلاخوں کے پیچھے رہنے والی آسیہ بی بی کو سپریم کورٹ نے بری کیا اور وہ پاکستان سے کینیڈا منتقل ہوگئیں۔ عدالت کے اس فیصلے پر ملک میں متعدد مذہبی جماعتوں کی طرف سے پر تشدد مظاہرے بھی ہوئے۔

،ویڈیو کیپشنپاکستان کی سپریم کورٹ نے مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی سزائے موت کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔

سیف الملکوک نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے خیال میں جوڑے کے خلاف کیس آسیہ بی بی کے کیس سے بھی زیادہ کمزور ہے اور انھیں بین الاقوامی برادری سے اسی طرح کی حمایت ملنی چاہیے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اگر انھیں بری کردیا جاتا ہے تو جوڑے کو کسی دوسرے ملک میں سیاسی پناہ کی ضرورت ہوگی۔ جبکہ جوزف کا کہنا تھا کہ انھیں امید ہے انصاف ملے گا اور آسیہ بی بی کے خلاف مقدمے کے خلاف فیصلے سے انھیں مزید حوصلہ ملا ہے۔

سپریم کورٹ کے جج صاحبان، جنھوں نے آسیہ بی بی کو بری کیا تھا، نے توہینِ رسالت کے جھوٹے مقدمات کے بارے میں خبردار کیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود ملک میں اس طرح کے کیسز میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اپریل میں احمدی برادری سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون پر توہینِ رسالت کے جرم میں مقدمہ چلایا گیا۔ وہ ایک مسجد کو چندا دینے کی کوشش کر رہی تھیں جب ان پر یہ الزام لگایا گیا۔