چین، انڈیا سرحدی کشیدگی کے بعد چینی مصنوعات کا بائیکاٹ سوشل میڈیا پر زیر بحث

انڈیا چین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

جہاں انڈیا اور چین کی سرحد پر گذشتہ چند ہفتوں سے صورتحال کشیدہ ہے وہیں سوشل میڈیا پر بھی کم از کم انڈیا میں چین مخالف ٹرینڈز پر گرما گرم بحث جاری ہے اور اس مرتبہ ان ٹرینڈز میں چین میں بنی ہوئی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کا کہا جا رہا ہے۔

انڈیا میں کئی دیگر چین مخالف ہیش ٹیگز میں ’بائیکاٹ چائنا‘ بھی ٹرینڈ کر رہا ہے۔

صارفین چین میں بنے موبائل فون، ایپس اور یہاں تک کہ چین میں بنائی جانے والی تمام مصنوعات کے بائیکاٹ کی بات کر رہے ہیں۔

اس حوالے سے باقاعدہ ویڈیوز بھی بنائی جا رہی ہیں جن میں چینی مصنوعات پر پابندی اور لوگوں کو ان کے استعمال سے روکنے کے حوالے سے پیغامات نمایاں ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا اور چین کے درمیان لداخ کے محاذ پر حالیہ سرحدی کشیدگی کو سنہ 1999 میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان کارگل میں ہونے والی جنگ کے بعد سے اب تک کی سب سے بڑی کشیدگی کہا جا رہا ہے۔

اس کشیدگی پر سوشل میڈیا پر زیادہ بحث ہو رہی ہے لیکن انڈین حکومت کی جانب سے اس حوالے سے خاطر خواہ بیانات نہیں دیے گئے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ صارفین سنی سنائی باتوں پر اپنا غصہ سوشل میڈیا کے ذریعے نکال رہے ہیں۔

Twitter پوسٹ نظرانداز کریں, 1
Twitter کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

Twitter پوسٹ کا اختتام, 1

اکثر تو اس حوالے سے صارفین کی ’منافقت‘ پر روشنی ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جیسے اداکار منوج جوشی کی ٹویٹ ’بائیکاٹ چائنا‘ کے جواب میں ایک صارف نے لکھا کہ آپ چین میں تیار کیے گئے فون سے ’بائیکاٹ چائنا‘ لکھ رہے ہیں۔

دنیا بھر کی طرح انڈیا میں بھی چین میں تیار کیے جانے والے سستے اور معیاری فونز بہت مقبول ہیں۔ ایسی ہی ایک کمپنی ریڈمی کے فونز کی انڈیا میں بڑی شہرت ہے۔

ٹویٹ

،تصویر کا ذریعہTwitter/HardikPatni

اسی بات کا حوالہ دیتے ہوئے ایک صارف ہردک پٹنا نے لکھا کہ ’لوگ ریڈمی فونز سے ٹویٹ کر رہے ہیں ’بائیکاٹ چائنا‘۔

سورو کمار کی طرح بہت سے افراد نے اپنے فون کا سکرین شاٹ شیئر کیا جس کا مطلب یا بتانا تھا فون میں کوئی چینی ایپ نہیں۔

Twitter پوسٹ نظرانداز کریں, 2
Twitter کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

Twitter پوسٹ کا اختتام, 2

روی رتن لکھتے ہیں کہ ’بائیکاٹ چائنا ایک لالی پاپ ہے جو لوگوں کو ہر مرتبہ ایسے وقت میں دی جاتی ہے جب حکومت داخلی معاملات میں مشکلات کا شکار ہو۔‘

انھوں نے کہا کہ اس سے لوگوں کا غصہ کسی اور پر نکالنے میں مدد ملتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ بہت سوں کے لیے ٹک ٹاک ڈیلیٹ کرنا حب الوطنی بن جاتی ہے۔

عتیق الانا نامی صارف نے ایک انڈین اخبار کا سکرین شاٹ شیئر کیا جس میں لکھا تھگ کہ فوج کی بلٹ پروف جیکٹس چین سے درآمد کی جاتی ہیں اور ساتھ اپنے پیغام میں وہ لکھتے ہیں ’انڈین فوج چین میں بنی ہوئی مصنوعات استعمال کرتی ہے۔ یہ بائیکاٹ چائنا صرف آپ کی توجہ اس حکومت کی نا اہلی سے ہٹانے کے لیے ہے۔‘

تاہم کچھ صارفین کو اس موضوع پر انڈین وزیرِ اعظم نریندر مودی کی خاموشی بالکل نہیں بھا رہی، جیسے نیرج بھاٹیہ، جو لکھتے ہیں کہ ’بائیکاٹ چائنا ہیش ٹیگ بہت ہو گیا اب وہ وقت آ گیا ہے کہ مودی چین پر بات کریں۔‘

چین، انڈیا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

انڈین ٹوئٹر صارفین بائیکاٹ چائنا ہیش ٹیگ استعمال کرنے میں زیادہ متحرک پچھلے چوبیس گھنٹوں میں ہوئے ہیں۔

بی جے پی کے رہنما اور گجرات کے سٹیٹ سیکرٹری امیت ٹھاکر نے بھی ایسی ایک ویڈیو کچھ عرصے پہلے شیئر کی جسے میں پاکستان کو بھی نشانہ بنایا گیا۔

یہ ویڈیو بھی اس ٹرینڈ میں اور بہت ساری ایسی ہی ویڈیوز کی طرح شیئر کی جا رہی ہیں۔ یہ ٹرینڈ بظاہر باقاعدہ مہم کا حصہ ہے۔

جہاں چین اور انڈیا کے درمیان تلخی کی بات ہو وہاں پاکستانی صارفین بھی اپنی آرا کا اظہار نہ کریں یہ تو ہونے سے رہا۔ تو پاکستان سے امیر حمزہ نامی ایک صارف نے ٹویٹ کیا کہ ’بائیکاٹ چین کا کر رہے ہو یا پاکستان کا۔ مطلب یہ ایک تذبذب کا شکار قوم ہے۔‘

Twitter پوسٹ نظرانداز کریں, 3
Twitter کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

Twitter پوسٹ کا اختتام, 3

انڈین صحافی اور اینکر راہل کنول نے ٹوئٹر پر رائے عامہ کا جائزہ لینے کی کوشش کی جس میں پوچھا گیا کہ ’کیا آپ بائیکاٹ چائنا کی تائید کریں گے؟‘ اس پر کم از کم 78 فیصد افراد نے ہاں میں جواب دیا۔

اسی کے جواب میں شکیل احمد نے لکھا کہ ’اگر میں چین کا بائیکاٹ کروں تو مجھے دنیا کے سب سے لمبے مجسمے کا بائیکاٹ کرنا پڑے گا جو گجرات کی شان ہے اور انڈیا کے وزیر اعظم کی بھی کیونکہ وہ چین میں بنا تھا۔‘

وہ کہتے ہیں ’چین میں بنی مصنوعات کے بائیکاٹ کا مطلب ہے آپ کے ٹی وی سٹوڈیو میں زیادہ تر سامان، آپ کا موبائل فون سب پھینکنا پڑے گا۔‘

راہل کنول کی ایک اور چین مخالف ٹویٹ پر ایک انڈین صارف نے لکھا میں ریڈ می فون استعمال کرتا ہوں اور چین کا بائیکاٹ نہیں کرنا چاہتا تو کیا فوراً پاکستان چلا جاؤں؟

برجیش نے ٹویٹ کی اور لکھا ’جب آپ سب چینی ایپس ڈیلیٹ کرنے میں مصروف تھے تاکہ چین کا بائیکاٹ کریں ایسے میں ایک چینی برینڈ ریئل می کے ٹی وی کا اجرا ہوا اور یہ چند منٹوں میں مکمل طور پر بک گئے‘۔

اس ٹرینڈ پر پاکستان سے بہت سارے ٹوئٹر ہینڈلز سے ایک ہی جملے اور تصویر کے ساتھ ٹویٹ شیئر کی گئی اور وہ یہ کہ ’اچھا ہے کہ لداخ میں چینی فوج سے لڑنے کے بجائے انڈین ٹوئٹر پر بائیکاٹ چائنا ٹرینڈ فالو کر رہے ہیں۔‘