جاسوسی کا الزام: پاکستانی سفارتی عملے کے اراکین کو انڈیا چھوڑنے کا حکم

انڈیا

،تصویر کا ذریعہReuters

انڈین وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ نئی دہلی میں پاکستانی سفارتی عملے کے دو ارکان کو مبینہ طور پر جاسوسی کے الزام میں مختصر مدت کے لیے حراست میں لیا گیا تھا۔

انڈین حکام نے ان دونوں سفارتی اراکین کو ناپسندیدہ شخصیات قرار دیتے ہوئے 24 گھنٹوں میں ملک سے نکل جانے کا حکم دیا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ان کی سرگرمیاں سفارتی آداب کے خلاف تھیں۔

یہ بھی پڑھیے

ادھر پاکستان کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں انڈیا کے اس اقدام کی مذمت کی گئی ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ سفارتی عملے کے دو اراکین کو جھوٹے اور بے بنیاد الزامات کی بنیاد پر 31 مئی کو حراست میں لیا گیا تھا اور نئی دلی میں پاکستانی سفارتخانے کی مداخلت کے بعد انھیں رہا کیا گیا۔

انڈین حکومت نے دلی میں موجود پاکستان کے سفارتی نمائندے کو پاکستانی ہائی کمیشن کے اہلکاروں کی مبینہ سرگرمیوں کے بارے میں ایک احتجاجی نوٹ بھی لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ پاکستان کے سفارتی عملے کا کوئی بھی رکن ایسا کوئی عمل نہ کرے جس سے انڈیا کو نقصان پہنچے۔

یاد رہے کہ اس سے قبل سنہ 2016 میں میں بھی پاکستان اور انڈیا دونوں جانب سے جاسوسی کے الزام میں سفارتی عملے کو ’ناپسندیدہ‘ قرار دیتے ہوئے وطن چھوڑنے کا کہا گیا تھا۔

دفتر خارجہ
،تصویر کا کیپشنپاکستان اور انڈیا سفارتی سطح پر حالیہ دنوں ایک دوسرے کے خلاف کافی سرگرم ہیں

اس وقت پاکستان میں انڈین سفارتی عملے کے آٹھ جبکہ انڈیا میں پاکستانی عملے کے چھ ارکان ناپسندیدہ قرار دیے گئے تھے۔

پاکستان کی جانب سے حالیہ الزامات کی تردید کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ انڈیا کی جانب سے یہ اقدام میڈیا کے ذریعے چلائی گئی سوچی سمجھے مہم کے بعد کیا گیا ہے جو پاکستان مخالف پروپیگنڈا کا حصہ ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’پاکستان ان اراکین کے حراست میں لیے جانے اور ان پر کیے جانے والے تشدد کی بھی شدید مذمت کرتا ہے۔

’نئی دلی میں پاکستانی سفارتی عملہ واضح طور پر بین الاقوامی قوانین کے دائرے میں رہتے ہوئے اور سفارتی قواعد کے مطابق کام کر رہا ہے اور انڈیا کی جانب سے کیا جانے والا اقدام پاکستانی سفارتخانے کے کام کو محدود کرنے کی کوشش ہے۔‘

سنہ 2016 میں کیا ہوا تھا؟

سنہ 2016 میں نئی دہلی میں انڈین حکام نے پاکستانی سفارتخانے کے ملازمین پر پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کے لیے کام کرنے کا الزام عائد کیا تھا جس کے بعد پاکستان نے اپنے چھ اہلکاروں اور عملے کے ارکان کو واپس بلایا تھا۔

اس کے بعد پاکستان کے دفتر خارجہ نے اسلام آباد میں واقع انڈین سفارت خانے کے آٹھ اہلکاروں کے نام ظاہر کرتے ہوئے ان پر انڈین خفیہ ادارے را اور انٹیلجنس بیورو کے لیے کام کرنے کا الزام عائد کیا تھا جس کے بعد انڈیا کو ان افراد کو وطن واپس بلانا پڑا تھا۔

پاکستانی حکام نے جن چھ انڈین اہلکاروں پر مبینہ طور پر را کے لیے کام کرنے کے الزامات عائد کیے تھے ان میں کمرشل قونصلر راجیش کمار اگنی ہوتری، فرسٹ سیکرٹری کمرشل انورگ سنگھ، ویزہ اتاشی امردیپ سنگھ بھٹی کے علاوہ عملے کے ارکان دھرمیندرا سوڈھی، وجے کمار ورما اور مادھون نندا کمار شامل تھے۔

بیان میں راجیش کمار اگنی ہوتری کو پاکستان میں انڈین خفیہ ادارے کا سٹیشن چیف قرار دیا گیا تھا۔

ان کے علاوہ مبینہ طور پر انڈین انٹیلیجنس بیورو کے لیے کام کرنے والے دو اہلکاروں میں فرسٹ سیکریٹری پریس اینڈ انفارمیشن بلبیر سنگھ اور پرسنل ویلفیئر آفسر جیا بالن سینتیل کے نام شامل تھے۔