کورونا وائرس: کیا مودی حکومت لاک ڈاؤن کی صورتحال کا جائزہ لینے میں غلطی کر گئی؟

  • نتن شریواستو
  • بی بی سی نیوز
نریندر مودی

،تصویر کا ذریعہEPA

،تصویر کا کیپشن

انڈیا میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے اور اب لاک ڈاؤن میں بھی نرمی کی جارہی ہے۔

انڈیا میں کورونا وائرس کا پہلا کیس 30 جنوری 2020 کو جنوبی ریاست کیرالہ میں سامنے آیا تھا۔

اس کے 52 دن بعد 24 مارچ کو ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی نے خطاب کرتے ہوئے محض چار گھنٹے کے نوٹس پر پورے انڈیا میں لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا تھا۔

اسی دن یعنی 24 مارچ تک پورے انڈیا میں کورونا وائرس کے کل 564 پوزیٹو کیسز سامنے آچکے تھے اور اس وقت کورونا وائرس سے ہونے والی اموات کی تعداد 10 بتائی گئی۔ یعنی کل 1.77 فی صد اموات۔

اب بات کرتے ہیں مئی کے تیسرے ہفتے کی۔ انڈیا میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی کل تعداد 108،923 ہے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ان میں سے 45،299 افراد صحت یاب ہوچکے ہیں۔ کورونا وائرس کی وجہ سے ہونے والی اموات کی اس وقت تعداد 3،435 ہے یعنی کل 17۔3 فی صد۔

سوال یہ ہے کہ کیا انڈیا کو اتنے سخت لاک ڈاؤن کی واقعی ضرورت تھی؟

دوسری جانب ایک حقیقت یہ ہے جس کا سامنا پوری دنیا کو ہے۔ وہ ہے بے روزگاری۔ غربت کی کھائی میں واپس دوبارہ جانے کا، اپنوں سے دور رہنے کا۔ اور انڈیا جیسے ملک میں غریب مزدوروں کی بد حالی۔ جو مزدور لاک ڈاؤن کے دوران بھوکے پیاسے پیدل اپنے گھروں کو نکلے اور راستے میں حادثات کا شکار ہوئے۔

ایک اندازے کے مطابق انڈیا میں کورونا وائرس پر قابو پانے کے لیے جو لاک ڈاؤن کیا گیا تھا اس کی وجہ سے اب تک 12 کروڑ لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں۔

ان میں سے بیشتر غیر منظم شعبوں میں کام کرنے والے مزدور ہیں یا پھر کمی مدتی کانٹریکٹ پر کام کرنے والے ملازمین ہیں۔

اتنی ہی بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو بے روزگار تو نہیں ہوئے لیکن جو بغیر تنخواہ کے گھر پر بیٹھے ہیں اور پھر سے دفاتر کھلنے کا انتظار کر رہے ہیں کیونکہ جب دفاتر بند تھے انہیں تنخواہیں نہیں ملیں۔

ملک کی معیشت کا یہ حال ہے کہ گذشتہ دو ماہ کے اندر حکومت کو 20 لاکھ کروڑ روپے کے امدادی پیکج کا اعلان کرنا پڑا ہے۔

معاملے کی سنجیدگی کا اندازہ لگانے کے لیے یہ بتا دوں کہ یہ رقم ملک کی مجموعی پیداوار یعنی جی ڈی پی کا 10 فی صد حصہ ہے۔

سیکورٹی اہلکار

،تصویر کا ذریعہEPA

،تصویر کا کیپشن

ایک اندازے کے مطابق انڈیا میں کورونا وائرس پر قابو پانے کے لیے جو لاک ڈاؤن کیا گیا تھا اس کی وجہ سے اب تک 12 کروڑ لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں۔

لاک ڈاؤن کیوں؟

کووڈ 19 ایک ایسی بیماری ہے جس سے نمٹنے میں پوری دنیا مصروف ہے۔

چین کے ووہان شہر سے شروع ہونے والی اس وبا نے دنیا کے ترقی پسند ممالک اور غریب ممالک سب کو اپنی لپیٹ میں لینے کی کوشش کی ہے۔

سپین ہو یا اٹلی، امریکہ ہو یا برطانیہ، جاپان یا جنوبی کوریا، کینیڈا یا برازیل، ہر ملک میں اس وائرس نے اپنا سر اٹھایا اور لوگوں کی جانیں لی ہیں۔

عالمی ادارہ صحت یعنی ڈبلو ایچ او کے مطابق دنیا میں کورونا وائرس کے کل کیسز 47 لاکھ سے تجاوز کر گئے ہیں جن میں سے تین لاکھ سے زیادہ کی اموات ہوچکی ہیں۔

دنیا کے بعض ممالک نے اس پر قابو پانے کے لیے مکمل لاک ڈاؤن کا نفاذ کیا تو بعض نے جزوی لاک ڈاؤن کا۔ یعنی جن علاقوں میں کم یا نہ ہونے کے برابر کیسز سامنے آئے وہاں لاک ڈاؤن کا نفاذ نہیں کیا۔

خامیاں کہاں رہیں؟

دلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں ڈیلولپمنٹ اکنومکس کی پروفیسر جیوتی گھوش کے مطابق انڈین حکومت نے لاک ڈاؤن کا نفاذ کرنے میں تاخیر کی اور ایک 'جمہوری ملک ہوتے ہوئے اپنے کروڑوں غریب مزدوروں کے بارے میں بے حد کم سوچا۔'

ان کا کہنا ہے کہ ’بنگلہ دیش، نیپال اور پاکستان جیسے پڑوسی ممالک نے لاک ڈاؤن کا انڈیا سے بہتر طریقے سے نفاذ کیا۔ مزدوروں کو اپنے گھر لوٹنے کا مناسب وقت دیا، ان کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کی۔ اس کے برعکس انڈیا میں غریب مزدوروں کو 45 روز تک پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت سے محروم رکھا اور جو جہاں تھا وہ وہیں پھنسا رہا۔ بیشتر بھوکے پیاسے۔ پھر اس کے بعد میڈیا کے دباؤ میں آکر خصوصی ٹرین سروس شروع کی لیکن کرائے اتنے مہنگے کہ متوسط طبقہ بھی ان کا نہ خرید سکے۔‘

حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن کے فوراً نفاذ کے دو مقاصد تھے۔ پہلا یہ ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنا کیونکہ اس کے پھیلنے کی شرح جسے 'آر او' کہتے ہیں، اسے قابو کرنا تھا اور دنیا کے دیگر ممالک کے تجربے اور ڈبلو ایچ او کی ہدایات کے مطابق قرنطینہ اس کا واحد علاج لگ رہا تھا۔

عالمی سطح پر اسے 'فلیٹ دا کرو' کہا جارہا ہے اور اس عمل سے ہسپتالوں میں مریضوں کے لیے بیڈ، آکسیجن وینٹیلیٹرز، پی پی ای کٹس کا انتظام کرنے کا وقت مل جاتا ہے۔

ہوسکتا ہے حکومت کو یہ بھی امید ہو کہ اس لاک ڈاؤن کے دوران ہی اس وائرس کے لیے کوئی ویکسین ایجاد ہوجائے۔

ڈاکٹر

،تصویر کا ذریعہEPA

،تصویر کا کیپشن

کوئیڈ 19 ایک ایسی بیماری ہے جس سے نمٹنے میں پوری دنیا مصروف ہے۔

وہ چيز جس نے امید قائم رکھی

اس دوران دو اہم چيزیں سامنے آئیں۔ پہلی یہ کہ کسی ملک میں کورونا سے متاثر افراد کی تعداد دوگنی ہونے میں کتنا وقت لگ رہا ہے۔ اسے ڈبلنگ ریٹ کے نام سے جانا جاتا ہے اور انڈیا میں لاک ڈاؤن کے نفاذ کے بعد اس میں کافی بہتری دیکھی گئی ہے۔

اور دوسرا ہے ’آر ناٹ‘ یعنی کہ ایک مریض سے کتنے لوگوں کو وائرس لگ سکتا ہے۔ اگر اس کی شرح 1 فی صد سے کم رہتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ انفیکشن کے کیسز کم ہو رہے ہیں جبکہ انڈیا میں یہ شرح ایک سے ڈھائی فی صد کے درمیان رہی۔

لاک ڈاؤن کی وجہ ہونے والی پریشانیوں کا اعتراف خود حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ترجمان اشونی اپادھیے بھی کرتے ہیں لیکن ان کا موقف تھوڑ الگ ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’یہ بات صحیح نہیں ہے کہ حکومت نے لاک ڈاؤن کا اعلان کرتے وقت غریب مزدوروں کے بارے میں نہیں سوچا۔ حکومت اس پر مسلسل نظر رکھے ہوئے تھی۔ لیکن یہ حالات بالکل نئے تھے جس سے نمٹنے کے لیے انڈیا کے پاس ماضی کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ نہ کسی اہلکار کے پاس اور نہ ہی کسی لیڈر کے پاس۔ آخر انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ کے دوران بھی ٹرینیں بند نہیں کرنی پڑی تھی۔ کوشش پوری کی گئی۔ ہم یہ چاہیے تھے کہ لوگوں کو تکلیف نہیں ہو، خاص طور سے مزدوروں کو۔ لیکن ان حالت نے یہ ثابت کردیا کہ ہمارے بھائی بہن پیدل بھی سفر کرسکتے ہیں۔ ان کا جذبہ کتنا عظیم ہے اور ہنر کی کمی نہیں ہے۔‘

بغیر علامات والے کیسز نے مشکل میں اضافہ کیا

امریکہ میں جانز ہاپکنز یونیورسی کے پروفیسر سٹیو ہینکے کا اشارہ ان کورونا پوزیٹیو کیسز کی جانب ہے جن میں بخار، کھانسی اور سانس پھولنے جیسی علامات نہیں ہوتی ہیں۔

ایسے کیسز کی اگر بات کریں تو اب تک کورونا وائرس کے جتنے بھی متاثرین سامنے آئے ہیں ان میں 60 فی صد ایسے مریض ہیں جن میں کورونا کی علامات تھی ہی نہیں۔

پروفیسر سٹیو ہینکے کہتے ہیں ’کورونا وائرس کی مشکل یہ ہے کہ بغیر علامات والا مریض بھی دوسروں کو یہ وائرس لگا سکتا ہے تو اس سے نمٹنے کا سب سے بہتر طریقہ ٹیسٹنگ ہے۔ وائرس کا پتا لگانے کے لیے سنگاپور نے ایسا ہی کیا۔ پریشانی کی بات یہ ہے انڈیا کے پاس اتنے ذرائع نہیں ہیں وہ ایسا کرپاتا۔‘

ادھر ڈبلو ایچ او نے کورونا کے پھیلا‎ؤ کو روکنے کے لیے لاک ڈاؤن ایک حل بتایا لیکن ساتھ یہ بھی بتایا کہ وائرس کن دو صورتحال میں سب سے زیادہ پھیلتا ہے۔

کووڈ 19 سے نمٹنے کے لیے ڈبلو ایچ او کے خصوصی ایلچی ڈیوڈ نابارو کے مطابق ’سب سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے کمیونٹی سپریڈ کا اور اس کے بعد کلسٹر سپریڈ کا۔ انڈیا میں کمیونٹی سپریڈ کے کیسز دیکھنے کو نہیں ملے ہیں لیکن ممبئی اور دلی جیسے علاقوں میں کلسٹر یعنی ایک علاقے میں وائرس کے پھیلاؤ کے زیادہ متاثرین سامنے آئے ہیں۔‘

سیکورٹی اہلکار

،تصویر کا ذریعہReuters

ماہرین کا خیال ہے کہ انڈیا میں لاک ڈاؤن بہت لمبے دن تک چلا۔

معروف ہارٹ سرجن ڈاکٹر دیوی شیٹی کا کہنا ہے کہ ’تین چار ہفتوں میں وقت پر لاک ڈاؤن کو ختم کرکے سماجی دوری پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت تھی۔‘

انھوں نے لاک ڈاؤن کے تیسرے ہفتے میں کہہ دیا تھا ’ہم کہہ سکتے ہیں انڈیا نے صحیح وقت پر لاک ڈاؤن کا فیصلہ کر کے اس وائرس سے ہلاکتوں کی شرح کو 50 صد کم کر لیا ہے۔ بہت سے ایسے ممالک ہیں جو یہ نہیں کرسکیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ہاٹ سپاٹ کے علاوہ پورے ملک کو بند کرنی کوئی طبی وجہ نہیں ہے۔‘

لاک ڈاؤنبہتر طریقے سے نافذ کیا جاسکتا تھا

طبی ماہرین کے علاوہ بعض سیاسی تجزیہ کار بھی اس لاک ڈاؤن پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔

اخبار بزنس سٹینڈرڈ کی سیاسی مدیر ادیتی فرنانڈز ان میں سے ایک ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’لاک ڈاؤن بہتر طریقے سے کیا جاسکتا تھا۔ مثال کے طور پر شمالی مشرقی ریاست جیسے سکم اور یہاں تک کہ گووا میں بھی جب ایک بھی کیس نہیں تھا تو وہ انڈسٹریاں کیوں بند کرا ديں۔ اگر ممبئی ہوائی اڈے کو پہلے بند کردیا ہوتا تو وہ صورتحال اتنی خراب نہ ہوتی۔‘

بہرحال انڈیا میں جیسے لاک ڈاؤن کی مدت بڑھتی گئی ویسے ویسے یہاں کورونا کے متاثرین کی فہرست بھی طویل ہوتی گئی۔

طبی ماہرین کے مطابق یہ اندازہ ہو چکا ہے کہ انڈیا میں کورونا کے کیسز میں اضافہ ہوگا کیونکہ انڈیا ٹیسٹنگ کی سہولیات بہتر کررہا ہے۔

حکومت کا بھی کہنا ہے کہ اس نے کورونا وائرس سے ہونے والی ہلاکتوں کو کم کیا ہے۔ اگر وہ لاک ڈاؤن نہ کرتی تو یہ معاملات بہت زیادہ ہوتے۔

بی جے پی کے ترجمان اشونی اپادھیائے کہتے ہیں ’مودی حکومت نے سبھی نتائج کو دھیان میں رکھتے ہوئے ملک گیر لاک ڈاؤن کیا تھا۔‘

لیکن بعض ذرائع کے مطابق ریاستوں کے وزرا اعلیٰ کے ساتھ میٹنگ میں ’وزیر اعظم مودی نے اس بات کی جانب اشارہ کیا تھا کہ لاک ڈاؤن کے دوران غریب مزدوروں کا مسئلہ اتنا سنگین ہوجائے گا، مرکزی حکومت کو اس کا اندازہ نہیں تھا۔‘

خاتون

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

اس وقت انڈیا میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی کل تعداد 108،923 ہے

تو حکومت کو مائگرینٹ مزدوروں کا خیال کیوں نہیں تھا؟

سوال یہ ہے کہ حکومت نے چار گھنٹے کے نوٹس پر پورا ملک کیسے بند کردیا۔ نیپال نے بھی مکمل لاک ڈاؤن کرنے سے پہلے عوام کو بارہ گھنٹے کی مہلت دی تھی تاکہ لوگ اپنے اپنے گھروں کو واپس پہنچ جائیں۔

کومن ویلتھ ہیومن رائٹس انسٹیٹیوٹ کے وینکٹیش نائک کا خیال ہے ’لاک ڈاؤن کو غریب مزدوروں کے بنیادی حقوق پر حملے کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔‘

بھارتیہ جنتا پارٹی کے ترجمان اشونی اپادھیائے کہتے ہیں ’لاک ڈاؤن کے بعد یقیناً معیشت کو نقصان ہوا۔ کام کاج رکا ہے اور لوگوں کو پریشانی ہوئی ہے۔‘

لیکن ان کا بھی وہی کہنا ہے کہ جو وزیر اعظم نریندر مودی ٹی وی پر آکر عوام سے کہہ چکے ہیں۔ ’انڈیا کے لیے ایک موقع ہے کہ ہم پوری طرح سے خود مختار ہوجائیں۔‘

اس دوران کووڈ 19 سے نمٹنے کے لیے بعض حقائق سامنے آچکے ہیں۔

ڈبلو ایچ او سمیت ادویات بنانے والی مشہور کمپنیوں کے مطابق کورونا کی روک تھام کے لیے جو ویکسین تیار ہورہی ہے اسے بننے میں 18 ماہ کا وقت لگ سکتا ہے۔

اس دوران کووڈ 19 سے نمٹنے کے لیے بعض حقائق سامنے آچکے ہیں۔ اس دوران کوئیڈ 19 سے نمٹنے کے لیے بعض حقائق سامنے آچکے ہیں۔ اس دوران کووڈ 19 سے نمٹنے کے لیے بعض حقائق سامنے آچکے ہیں۔ اس دوران کووڈ 19 سے نمٹنے کے لیے بعض حقائق سامنے آچکے ہیں۔

ڈبلو ایچ او سمیت ادویات بنانے والی مشہور کمپنیوں کے مطابق کورونا کی روک تھام کے لیے جو ویکسین تیار ہورہی ہے اسے بننے میں 18 ماہ کا وقت لگ سکتا ہے۔

ڈبلو ایچ او کے اعلیٰ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے کئی وائرس ہیں جن میں ایڈز بھی شامل ہے جن کی آج تک کوئی ویکسین نہیں بن سکی ہے۔

اس کے علاوہ کورونا وائرس کو خود سے دور رکھنے کے لیے سماجی دوری برقرار رکھنا بے حد ضروری ہے۔

ان سبھی باتوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے صحت عامہ کے ماہرین اور انڈین جرنل آف میڈیکل ایتھکس کے مدیر ڈاکٹر امر جیسانی کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کووڈ 19 سے نمٹنے کا آخری طریقہ نہیں بلکہ ایک ذریعہ ہے۔

ان کے مطابق ’لاک ڈاؤن کسی وبا کا علاج نہیں ہے۔ اس کا مقصد وائرس کے پھیلاؤ کو کم کرنا ہوسکتا ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب حکومتیں وائرس سے نمٹنے کے لیے تیاری کرلیتی ہیں۔ انہیں ہسپتال بنانے، طبی سہولیات جمع کرنے کا وقت مل جاتا ہے۔‘