چینی فورینزک رپورٹ: ’ترین، زرداری، شریف خاندان سمیت چھ بڑے گروپس نے فراڈ اور ہیرا پھیری کی‘

  • اعظم خان
  • بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
رپورٹ میں آنے والے چاند نام

،تصویر کا ذریعہJehangirtareen.com/AFP/@MoonisElahi

وفاقی کابینہ نے جمعرات کو چینی بحران سے متعلق فورینزک رپورٹ عام کر دی ہے۔ اس رپورٹ میں پاکستان کے نو بڑے گروپوں کی ملز کی آڈٹ کی تفصیلات شامل ہیں۔

کمیشن کی رپورٹ کے مطابق مبینہ طور پر پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والی اہم کاروباری شخصیت جہانگیر ترین، سابق حکمران شریف خاندان، گجرات کے چوہدری برادران، پنجاب اور سندھ کی حکومتوں نے ’فراڈ اور ہیرا پھیری کی ہے‘۔

کمیشن نے اپنی رپورٹ میں چینی کی برآمدات اور سبسڈی سے متعلق سابق وزیر خزانہ اسد عمر کے بیان کو بھی غیر تسلی بخش قرار دیا ہے۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے وزیر اطلاعات شبلی فراز کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ’کمیشن کی رپورٹ سے واضح ہو جاتا ہے کہ شوگر ملز مالکان نے عام آدمی اور کسان کے ساتھ فراڈ کیا ہے اور انھیں لوٹا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم یہ بات کرتے تھے کہ ’جو کاروباری ہوتے ہیں وہ حکومت میں نہیں ہوسکتے۔ یہ مفاد کا تضاد ہوتا ہے، اس حوالے سے آج پاکستان کی تاریخ کا اہم دن ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

شہزاد اکبر نے بتایا کہ کمیشن رپورٹ کے مطابق جہانگیر ترین کی جے ڈی ڈبلیو ملز پاکستان میں چینی کی پیداوار کا سب سے بڑا گروپ ہے اور یہ کہ انھوں نے مبینہ طور پر ’غیر قانونی طور پر سب سے زیادہ پیداواری صلاحیت بڑھائی ہے۔‘

اس سے متعلق شہزاد اکبر نے کہا کہ ’پیداواری صلاحیت کے اعتبار سے جے ڈی ڈبلیو نے قانون کی خلاف ورزی میں تقریباً آٹھ نو ملز تک کا اضافہ کیا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ رپورٹ میں شوگر کی پروکیورمنٹ سے لے کر شوگر برآمدات تک سب چیزوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔

ان الزامات کے سامنے آنے کے بعد جہانگیر ترین نے ٹویٹ میں کہا ہے کہ ’جس قسم کے جھوٹے الزامات مجھ پر لگائے گئے ہیں ان کا سن کر دھچکا لگا۔ میں نے ہمیشہ صاف شفاف کاروبار کیا ہے۔ پورا ملک جانتا ہے کہ میں نے ہمیشہ کاشتکار کو پوری قیمت دی ہے۔ میں دو کھاتے نہیں رکھتا۔‘

انھوں نے کہا کہ وہ اپنے ٹیکس ادا کرتے ہیں اور ہر الزام کا جواب دیں گے۔

مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ رپورٹ پڑھنے کے بعد ن لیگ ردعمل دے گی۔

مسلم لیگ ق کے رہنما مونس الہٰی نے کہا ہے کہ ’میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ کسی شوگر مل کے بورڈ یا مینیجمنٹ میں شامل نہیں ہوں۔ کمیشن کی قانون سازی کے لیے سفارشات کی حمایت کرتا ہوں‘۔

رپورٹ میں جن دیگر شخصیات کے نام سامنے آئے ہیں ابھی ان کی جانب سے ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

چینی کا بحران

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنچینی بحران پر قابو پانے کے لیے وفاقی حکومت نے یوٹیلیٹی سٹورز کو سبسڈی دینے کا اعلان کیا ہے

شہزاد اکبر کے مطابق کمیشن رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ ’گنے والے کسان کو مسلسل نقصان پہنچایا گیا، انھیں لوٹا گیا۔ شوگر ملز نے انتہائی کم داموں میں کاشتکار کو قیمت ادا کی ہے۔ ملز مالکان نے جس وقت 140 روپے سے کم قیمت پر گنا خریدا اس وقت سپورٹ پرائز 190 روپے بنتی تھی۔‘

انھوں ںے بتایا کہ ’تحقیقات کے بعد اس گنے کی قیمت میں اس وقت اضافہ کیا گیا جب حکومت نے کمشن بنانے کا اعلان کیا۔‘ شہزاد اکبر کے مطابق ’مل مالکان نے عوام کے ساتھ زیادتی کی ہے اور انھیں لوٹا ہے۔‘

’پیداواری قیمت میں فرق‘

شہزاد اکبر نے بتایا کہ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق ’مل مالکان نے پیداواری قیمت بڑھائی اور آڈٹ کے مطابق چینی کی فی کلو قیمت پر اوسطاً 13 روپے کا فرق سامنے آیا ہے۔‘

ان کے مطابق ’کمیشن کا کہنا ہے کہ سنہ 2018 میں ملز کی طرف سے 52 روپے چھ پیسے قیمت رکھی گئی جبکہ یہ 40 روپے چھ پیسے بنتی تھی۔

شہزاد اکبر نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’ملز نے 2019-20 میں یہ قیمت 62 روپے مقرر کی جبکہ کمیشن کے مطابق یہ قیمت صرف 46 روپے چار پیسے بنتی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ کمیشن کے مطابق گنا کم قیمت پر خرید کر کاغذوں میں زیادہ قیمت دکھائی گئی ہے۔ ملز نے اپنے نقصان کو بھی اس پیداواری قیمت میں دکھایا ہے۔‘

شوگر کمیشن نے مل مالکان کے اس موقف سے اتفاق نہیں کیا ہے۔

’عام آدمی کے ساتھ زیادتی‘

شہزاد اکبر کے مطابق کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’پیداواری قیمت میں ہر سال 12 سے 13 روپے کا فرق نظر آ رہا ہے۔ چینی کا بحران پیدا کرنے کے لیے دانستہ ہیرا پھیری کی گئی ہے، جس کا فائدہ مل مالکان اور نقصان عوام کو ہوتا ہے‘۔

شہزاد اکبر نے چینی کی مارکیٹ میں ڈیلیوری کے حوالے سے سٹے کے طریقہ کار پر بات کی کہ اس پر کمیشن نے تفصیل سے لکھا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’شوگر کمیشن بننے کی وجہ سے کاروباری حضرات کو جوے اور سٹے میں نقصان ہوا ہے۔ تحقیقات کا آغاز نہ ہوتا تو ابھی چینی کی قیمتوں میں اضافہ ہونا تھا۔‘

چینی کا بحران

،تصویر کا ذریعہGetty Images

’اکاؤنٹس کی مد میں فراڈ‘

شہزاد اکبر نے رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ چار یا پانچ فیصد گنا گڑ کے لیے بھی رکھ دیں تو پھر بھی باقی 25 فیصد مقدار کہاں گئی اس کے بارے میں معلومات نہیں دی گئیں۔

شہزاد اکبر کے مطابق ’ایک عشاریہ سات ملین ٹن چینی رپورٹ ہی نہیں کی گئی۔ مل مالکان نے دو دو کھاتے رکھے ہوئے ہیں۔ ایک وہ جو اداروں کو دکھایا جاتا ہے اور دوسرا سیٹھ کے لیے کہ حقیقت میں کتنا فائدہ ہوا ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ کمیشن رپورٹ میں درج ہے کہ ’بے نامی ٹرانزیکشن ہوئی ہیں، جو ٹیکس چوری کا معاملہ ہے۔ مل مالکان نہ روڈ ڈویلپمنٹ دے رہے ہیں اور نہ سیلز ٹیکس دے رہے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’تمام ملز نے کرشنگ کی صلاحیت کو بڑھایا ہے۔ پہلے اس کے لیے اجازت چاہیے ہوتی ہے۔ مخلتف ملز نے دس ہزار سے لے کر 65 ہزار تک پیداواری صلاحیت بڑھا دی یعنی آٹھ نو ملز بغیر اجازت کے لگا دی گئی ہیں۔‘ اس ضمن میں انھوں نے جہانگر ترین کا نام بھی لیا ہے۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ ’اس طریقے سے یہ اکاؤنٹس فراڈ ہوا ہے۔‘

برآمدات میں سبسڈی

شہزاد اکبر نے بتایا کہ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق سندھ کے وزیر اعلیٰ نے اومنی گروپ کو فائدہ پہنچانے کے لیے نو اعشاریہ تین ارب روپے کی سبسڈی دی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’گذشتہ پانچ سال میں 29 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی ہے۔ اس عرصے میں مل مالکان نے 52 ارب روپے کا انکم ٹیکس دیا، جس میں سے 29 ارب کی سبسڈی میں چلے گئے۔ اس میں 12 ارب ریفنڈ ہوئے اور اس طرح کل انکم ٹیکس صرف دس ارب روپے دیا گیا ہے۔‘

تحقیقاتی کمیشن کے مطابقاس وقت کے وزیر خزانہ اسد عمر نے کمیشن کے سامنے پیش ہو کر اپنے بیان میں کہا کہ ملک کو زرمبادلہ کی اشد ضرورت تھی اس وجہ سے چینی کی برآمدات کی اجازت دی گئی تھی۔

اسد عمر نے کہا کہ اس وقت ملک میں وافر مقدار میں چینی موجود تھی، کوئی بحران نہیں تھا۔ ان کے مطابق کرشنگ سیزن شروع ہونے والا تھا اس وجہ سے قلت کا کوئی ڈر نہیں تھا۔ اور یہ کہ 2019 میں چینی کی قیمتوں میں اضافے کو برآمدات سے نہیں جوڑا جا سکتا۔

اسد عمر نے کمیشن کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ چینی کے سٹاک اور ذخیرے سے متعلق صوبائی حکومتوں نے تفصیلات بھیجی تھیں اور کوئی وجہ نہیں کہ صوبائی حکومتوں کی طرف سے وزارت صنعت کو دیے گئے اعدادوشمار پر بھروسہ نہ کیا جاتا۔

رپورٹ کے مطابق اسد عمر سے جب کمیشن نے پوچھا کہ پہلے یہ فیصلہ ہوا تھا کہ سبسڈی نہیں دینی تو پھر یہ صوبوں کو اختیار کیوں دیا گیا کہ انھیں جیسے مناسب لگے وہ کر لیں تو اس پر اسد عمر کا جواب تھا کہ غیر رسمی طور پر اس معاملے پر بات ہوئی تھی کہ کیونکہ 18 ویں ترمیم کے بعد یہ صوبوں کے اختیار میں ہے تو اس وجہ سے سبسڈی کا معاملہ صوبوں پر ہی چھوڑنے کا فیصلہ کیا گیا۔

کمیشن نے اپنی رپورٹ میں اسد عمر کے بیان کو غیر تسلی بخش قرار دیا ہے۔

وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے کمیشن کو بتایا کہ سبسڈی کا معاملہ کابینہ میں زیر بحث آیا تھا۔ کمیشن کے مطابق پنجاب حکومت نے ای سی سی کے فیصلے سے پہلے سبسڈی دینے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ 

کمیشن کے مطابق سیکریٹری فوڈ نے جو سمری صوبائی کابینہ کو بھیجی تھی اس میں چینی کے سٹاک، پیداواری قیمت اور بین الاقوامی مارکیٹ میں شوگر کی قیمتوں کا تعین کرنے کا کہا گیا تھا جو نہیں کیا گیا۔

پیداواری قیمتوں کی تفصیلات بتاتے ہوئے کمیشن نے مل مالکان کے لیے سبسڈی کو غیر ضروری قرار دیا۔ 

کارٹلائزیشن

شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ ’شوگر ملز اس وقت اجارہ داری قائم کیے ہوئے ہیں۔ مسابقتی کمیشن اس کارٹلائزیشن کو توڑنے میں ناکام رہا ہے۔ کچھ ملز کا فورینزک آڈٹ کیا گیا ہے۔ چھ بڑے گروپس جو 51 فیصد شوگر پیدا کرتے ہیں۔ ان چھ گروپس کے نمونے لے کر فورینزک کیا گیا۔‘

ان کے مطابق ’ان ملز میں سے سب سے زیادہ حصہ یعنی 20 فیصد جہانگیر ترین کی جے ڈی ڈبلیو ملز گروپ کا ہے۔ اس میں ہونے والی خلاف ورزیوں سے متعلق عید کے بعد وزیر اعظم کی ہدایت پر سفارشات تیار کی جائیں گی۔

شہزاد اکبر کے مطابق ’اس بات کا بھی فیصلہ کیا جائے گا کہ اس فراڈ کے خلاف کون سا ادارہ ان مل مالکان کے خلاف کارروائی کرے۔

شہزاد اکبر کا کہنا ہے کہ کمیشن رپورٹ کے مطابق اس وقت حکومتی ادارے یرغمال بنے ہوئے ہیں۔

کمیشن کی سفارشات

رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ حکومت ایسا طریقہ کار متعین کرے جس سے گنے کی پیداوار سے متعلق صحیح معلومات حاصل ہو سکیں۔ حکومت ماہرین کے ذریعے اس بات کو یقینی بنائے کہ کتنا گنا درکار ہے اور اس حساب سے اس کی پیداوار کتنے رقبے پر ہونی چاہیے۔

کمیشن کے مطابق گنے کی پیداوار اور پھر کٹائی کے حساب میں فرق کے لیے بھی ریسرچ کی ضرورت ہے تاکہ کوئی پیداوار پوشیدہ نہ ہو۔

کمیشن کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومتیں سٹہ جیسی پریکٹسز کے خاتمے کے لیے سخت اقدامات اٹھائیں اور اس حوالے سے اس طرح کی پریکٹس میں ملوث افراد کے خلاف ایجنسیز سے بھی ڈیٹا حاصل کیا جا سکتا ہے۔

ملوں کے گودام ’ویئر ہاؤس ایکٹ‘ کے تحت مانیٹر کیے جائیں تاکہ ذخیرہ اندوزی نہ ہو سکے۔