ہاشم خان: سکواش کے پہلے پاکستانی فاتح عالم جنھوں نے برٹش اوپن میں حصہ لینے کے لیے اپنی عمر تین سال کم لکھوائی

  • عبدالرشید شکور
  • بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
ہاشم خان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنہاشم خان کی 6 مارچ 1951 کو برطانیہ میں عالمی مقابلے کی تیاری کرتے ہوئے

یہ نو اپریل سنہ 1951 ہے۔ لندن کے لینڈس ڈاؤن کلب میں موجود شائقین کی نظریں اپنے سامنے موجود دو کھلاڑیوں پر مرکوز ہیں، جو کچھ دیر میں برٹش اوپن کا فائنل کھیلنے والے ہیں۔

ان میں سے ایک مصر کے محمود الکریم ہیں جو گذشتہ دو سال سے یہ چیمپیئن شپ جیت رہے ہیں۔ دوسری جانب ان کے مقابلے پر پاکستان کے ہاشم خان ہیں، جنھوں نے اپنی پہچان کرانے کے لیے پہلی بار ملک سے باہر کا سفر اختیار کیا ہے۔

شائقین ان دونوں کے درمیان دلچسپ مقابلے کی توقع کر رہے ہیں۔

اس فائنل سے ایک ہفتے پہلے یہ دونوں ایڈنبرا سکاٹش اوپن کا فائنل کھیلے تھے، جس میں ہاشم خان نے 9 صفر۔ 9صفر اور 10۔ 8 کے سکور سے کامیابی حاصل کی اس کے باوجود سب کو پتا ہے کہ محمود الکریم برٹش اوپن کا ٹائٹل آسانی سے اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے لیکن جو کچھ ہوا وہ سب کے لیے حیران کُن تھا۔

یہ بھی پڑھیے

ہاشم خان نے پہلی گیم 9-5 کے سکور سے جیتی۔ جس کے بعد ایسا لگا کہ سکواش کورٹ میں صرف ہاشم خان ہی کھیل رہے ہیں اور ان کے سامنے کوئی نہیں۔

انھوں نے اگلی دو گیمز 9۔صفر اور 9۔صفر سے جیت لی تھیں۔ یہ میچ محض 33 منٹ جاری رہا۔ دوسرے لفظوں میں ایک نئی تاریخ محض آدھے گھنٹے میں رقم ہو گئی۔

اگلے روز برطانوی اخبارات نے ہاشم خان کی کامیابی کو نمایاں طور پر شائع کیا۔

ٹیلیگراف میں جان اولیف نے لکھا کہ ہاشم خان اتنے تیز تھے کہ ان کے لیے گیند تک پہنچنا مشکل نہیں تھا۔

دی ٹائمز کی رپورٹ میں لکھا تھا کہ ان کی رفتار کمال کی تھی اور ان کے اسٹروکس پرفیکٹ تھے۔ انھوں نے کراس کورٹ شاٹس اس قوت سے کھیلے کہ ان کے حریف کے پاس ان کا جواب نہ تھا۔

یہ بین الاقوامی سکواش میں پاکستان کا پہلا تعارف تھا۔

اس زمانے میں برٹش اوپن کو ایک طرح سے ورلڈ چیمپیئن شپ کی حیثیت حاصل تھی لہٰذا ہاشم خان اس لحاظ سے سکواش کے پہلے پاکستانی فاتح عالم قرار پائے۔

ہاشم خان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

خواب حقیقت کیسے بنا؟

ہاشم خان کے لیے برطانیہ جا کر وہاں کے سکواش مقابلوں میں حصہ لینا ایک دیرینہ خواب تھا۔ ممبئی میں مقیم ان کے دور کے رشتہ دار عبدالباری کو برطانیہ میں کھیلتا دیکھ کر ان کی خواہش مزید شدت اختیار کر گئی تھی۔

وہ عبدالباری کو ممبئی میں ہونے والے سکواش ٹورنامنٹ میں ہرا چکے تھے اور انھیں یقین تھا کہ اگر عبدالباری برطانیہ جا کر کھیل سکتے ہیں تو وہ کیوں نہیں؟

یہ بات اس لیے بھی سچ ثابت ہوئی کہ ہاشم خان نے برٹش اوپن سے قبل کھیلی گئی برٹش پروفیشنل چیمپیئن شپ کے فائنل میں عبدالباری کو پانچ گیمز کے سخت مقابلے میں شکست دی۔

عبدالباری کو ممبئی کلب نے برطانیہ بھیجا تھا۔ اس کلب کے پاس متمول ممبرز تھے اس لیے عبدالباری کے مالی اخراجات آسانی سے اٹھا لیے گئے تھے لیکن ہاشم خان کی مدد کون کرے گا؟

یہ اہم سوال تھا۔

ہاشم خان کو برطانیہ بھیجنے کا بیڑا پاکستان ایئر فورس نے اٹھایا۔ ان کے سفر کے لیے پیسہ اکٹھا کیا گیا اور انھیں ایک خصوصی جہاز سے برطانیہ روانہ کیا گیا لیکن اس سے پہلے کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے جو ہاشم خان کے لیے حوصلہ شکنی کا باعث بنے تھے۔

ایسے میں پاکستان ایئر فورس کے گروپ کیپٹن رضا نے ان کی بھرپور حوصلہ افزائی کی۔

ہاشم خان کو پشاور کلب میں کھیلتا دیکھ کر متاثر ہونے والے ایک ریٹائرڈ افسر بریگیڈیئر ایف ایچ بی انگال نے لندن میں پاکستانی ہائی کمشنر رحمت اللہ سے کہا کہ ہاشم خان یقینی طور پر ورلڈ چیمپیئن ہیں لہٰذا انھیں کھیلنے کا موقع دیا جائے، جس پر ہائی کمشنر نے حکومت پاکستان کو خط لکھا جو مختلف جگہوں سے ہوتا ہوا پاکستان ایئرفورس تک پہنچا۔

ہاشم خان کو پرکھنے کے لیے ٹرائلز کرائے گئے اگرچہ انھوں نے تمام کھلاڑیوں کوشکست دی لیکن اعلیٰ افسران ہاشم خان کے کھیل سے متاثر نہیں ہوئے کہ ان کا کھیل بین الاقوامی معیار کا معلوم نہیں ہوتا۔ تاہم گروپ کیپٹن رضا انھیں قائل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

انھوں نے ہی ہاشم خان کے ذہن سے یہ بات بھی نکالی کہ وہ برٹش اوپن کھیلنے کے لیے عمر رسیدہ ہو چکے ہیں۔

ہاشم خان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

دلچسپ بات یہ ہے کہ ہاشم خان نے برٹش اوپن میں اپنا نام درج کرانے کے لیے اپنی عمر تین سال کم بتائی تھی کیونکہ انھیں ڈر تھا کہ زیادہ عمر کی وجہ سے کہیں انھیں برٹش اوپن میں شرکت کی اجازت نہ دی جائے۔

برٹش اوپن جیت کر ہاشم خان جب وطن واپس لوٹے تو ان کا کراچی اور پشاور میں ہیرو کی طرح استقبال ہوا تھا۔

انھیں خوش آمدید کہنے والوں میں گورنر جنرل بھی شامل تھے۔ انھیں سونے کی گھڑی تحفے میں پیش کی گئی۔ پاکستان ایئرفورس نے انھیں باقاعدہ گزیٹڈ افسر بنا دیا اور انھیں لیفٹیننٹ انسٹرکٹر کا رینک دیا گیا۔ ان کا کام یہ تھا کہ وہ ہفتے میں دو دن رسالپور میں واقع پی اے ایف اسکول کے کیڈٹس کو سکواش سکھائیں گے۔

ہاشم خان برٹش اوپن جیت کر واپس آئے تو ان کے پاس نئی سکوٹر بھی آ چکی تھی۔ یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ پہلی بار برٹش اوپن جیتنے پر ہاشم خان کو پچاس پاؤنڈ کی انعامی رقم ملی تھی، جو اس زمانے میں پاکستانی ساڑھے چھ سو روپے بنتی تھی۔