انڈیا: ’تبلیغی جماعت کا نام آیا تو افواہوں نے مسلم مخالف رنگ اختیار کر لیا‘

  • مہتاب عالم
  • صحافی، دلی
دلی کے علاقے نظام الدین میں تبلیغی جماعت کا اجتماع ہوا تھا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشندلی کے علاقے نظام الدین میں تبلیغی جماعت کے اجتماع کے بعد ملک میں اس سے جوڑے افراد میں کورونا وائرس کے مثبت کیسز سامنے آئے ہیں

صحافی دیپک چورسیا کا شمار انڈیا کے مشہور ہندی ٹی وی اینکرز میں ہوتا ہے۔ وہ اس وقت ہندی ٹی وی چینل نیوز نیشن کا اہم چہرہ بھی ہیں اور ٹوئٹر پر ان کے فالورز کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے۔

انھوں نے اتوار کی دوپہر اپنے ایک ٹویٹ میں دعویٰ کیا کہ اتر پردیش کے پریاگراج (جسے پہلے الہ آباد کے نام سے جانا جاتا تھا) میں تبلیغی جماعت پر تنقید کرنے کی وجہ سے ایک نوجوان کا قتل کر دیا گیا۔ انہوں نے لکھا تھا ’پریاگراج میں جماعت پر تنقید کرنے کی وجہ سے ایک نوجوان کا قتل کر دیا گیا۔ محمد سونا پر گولی مارکر ہلاک کرنے کا الزام عائد ہوا ہے۔ تبصرہ کرنے پر گولی مارنا، اتنی حیوانیت آتی کہاں سے ہے؟‘

یہ بھی پڑھیے

دیپک چورسیا کی ٹویٹ

،تصویر کا ذریعہDEEPAKCHAURASIA@TWITTER

اسی طرح کی خبر کم از کم ایک ہندی اخبار میں بھی شائع ہوئی۔ تاہم، بعد میں چورسیا کی ٹویٹ کا جواب دیتے ہوئے مقامی پولیس نے کہا کہ ’اس معاملے کا تبلیغی جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘

اسی طرح اتوار کو ہی ہندی کے کثیر الاشاعت اخبار ’امر اُجالا‘ کے فرنٹ پیج پر خبر شائع ہوئی، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ اتر پردیش کے سہارنپور میں قرنطینہ کے دوران تبلیغی جماعت سے وابستہ لوگوں کی جانب سے ’نان ویج کھانے کے مطالبے کو نہ پورا کیے جانے کے بعد ان کی طرف سے ہنگامہ کیا گیا اور کھلے میں رفع حاجت کی گئی‘۔

’امر اُجالا‘

،تصویر کا ذریعہAMAR UJALA

اس خبر کو دوسرے میڈیا اداروں نے بھی شائع کیا۔ مقامی انتظامیہ کو جب اس کا علم ہوا تو اس نے اس معاملے کی تفتیش کی اور اسے غلط پایا۔ ضلع پولیس کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ پولیس معاملے کی تفتیش کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا تھا۔ پولیس نے میڈیا اداروں کو اس خبر کی تردید شائع کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔

پیر کو زی نیوز اور کچھ دوسرے میڈیا اداروں نے خبر چلائی کہ ’اتر پردیش فیروز آباد میں تبلیغی جماعت کے کورونا پازیٹو افراد کو لینے پہنچی میڈیکل ٹیم پر پتھراؤ کیا گیا‘۔ پولیس نے اس معاملے کو بھی فیک بتایا ہے۔ مقامی پولیس نے اپنے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ پر جاری ایک بیان میں کہا کہ ’ضلعے میں ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا ہے اور یہ خبر جھوٹی ہے اور اسے فوراً ڈیلیٹ کیا جائے‘۔ اس کے بعد زی نیوز نے اس خبر کو اپنے ٹوئٹر سے ہٹا لیا ہے۔ لیکن گوگل کرنے پر فیروز آباد کے بارے میں ہی اسی طرح کی خبر مل جاتی ہے۔

زی نیوز اور فیروز آباد پولیس کے ٹویٹ

،تصویر کا ذریعہZEE@TWITTER

مسلمانوں کے خلاف فیک نیوز اور افواہیں

در اصل کورونا وائرس کے معاملے میں تبلیغی جماعت والوں کا نام آنے کے بعد انڈیا میں تبلیغی جماعت اور مسلمانوں کے بارے میں فیک نیوز اور افواہوں کا سیلاب سا آ گیا ہے۔ اور اس کا دائرہ صرف اتر پردیش اور ہندی میڈیا تک محدود نہیں ہے۔ ملک کی دوسری ریاستوں اور زبانوں میں بھی ایسی خبریں عام کی جا رہی ہیں، جس کے ذریعے کورونا کی وبا کے لیے مسلمانوں کو ذمہ دار ٹہرایا جا سکے۔

گذشتہ دنوں میڈیا میں یہ خبر عام کی گئی کہ جنوبی ہند کی ریاست تامل ناڈو میں تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے 18 افراد کو کورونا وائرس سے متاثر پایا گیا ہے. تاہم بعد میں پتہ چلا کہ ان کا ٹیسٹ بھی نہیں ہوا تھا اور میڈیا میں یہ خبر بنا کسی ٹھوس بنیاد کے عام کر دی گئی۔ اصل معاملہ یہ تھا کہ تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے افراد خود ٹیسٹ کروانے ہسپتال گئے تھے لیکن ان کا ٹیسٹ نہیں ہوا تھا۔

ڈیکن کرانیکل

،تصویر کا ذریعہDECCAN CHRONICLE

ہندوستان میں فیک نیوز پر نظر رکھنے اور اس کا انکشاف کرنے والے ادارے آلٹ نیوز کے سربراہ پرتیک سنہا کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں کورونا وائرس اور مسلمان مخالف افواہوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے احمد آباد سے فون پر بتایا کہ شروع میں جب کورونا وائرس کے متعلق خبریں عام ہوئیں تو افواہوں کی نوعیت بنیادی طور پر صحت پر اس کے اثرات اور اس کے علاج کے متعلق غلط فہمیوں تک محدود تھی مگر جیسے ہی اس معاملے میں تبلیغی جماعت کا نام آیا تو افواہوں اور فیک نیوز نے مسلم مخالف رنگ اختیار کر لیا۔

ان کا کہنا ہے کہ گذشتہ چند دنوں میں خود ان کی ٹیم نے ایک درجن سے زیادہ معاملوں کا انکشاف کیا ہے۔ ان کے مطابق ’پرانی تصویروں، ویڈیوز اور خبروں کے ذریعے ملک میں مسلم مخالف ماحول بنایا جا رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے لیے پاکستانی تصاویر کا بھی استعمال کیا جا رہا ہے‘۔

اس کا فوری اثر یہ ہوا کہ بعض لوگوں میں تبلیغی جماعت اور مسلمانوں کی مخالفت میں اضافہ ہوا جن میں ایسے لوگ بھی شامل تھے جن سے آپ عمومی طور پر توقع نہیں کرتے کہ وہ ایسی فواہیں سن کر بغیر تصدیق کیے اس پر اعتماد کر لیں گے۔ ان حالات نے مسلمانوں میں بھی اضطراب کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ کئی مقامات سے مساجد اور مسلمانوں پر حملوں کی خبریں بھی موصول ہو رہی ہیں۔ کئی مقامات پر مسلمانوں کے سماجی اور معاشی بائیکاٹ کی اپیل بھی کی جا رہی ہے۔

کورونا بینر
لائن

دلشاد محمود کی خودکشی

ان مسلم اور تبلیغی جماعت مخالف خبروں کا اثر تھا کہ ریاست ہماچل پردیش کے ضلع اُنا میں دلشاد محمود نامی شخص نے اتوار کو خودکشی کرلی۔ دلشاد کو لوگوں نے تبلیغی جماعت سے جڑے رہنے پر ملامت کی جس سے پریشان ہوکر انھوں نے یہ قدم اٹھایا۔ مقامی پولیس انچارج راکیش کمار کے مطابق، علاقے کے دو افراد تبلیغی مرکز کے اجتماع میں شامل ہوئے تھے جن سے دلشاد کے تعلقات تھے۔ احتیاط کے پیش نظر دلشاد نے کورونا کی جانچ کروائی تھی تاہم ان کی رپورٹ نگیٹیو آئی تھی۔

دلشاد کی والدہ نے کہا کہ ان کے ’بیٹے کی بےعزتی کی گئی، حتیٰ کہ لوگوں نے اس سے دودھ خریدنا بند کردیا جس سے مجبور ہو کر اس نے یہ قدم اٹھایا‘۔ وہیں دلشاد کی اہلیہ نے انگریزی روزنامے دی ٹریبیون کو بتایا کہ لوگوں نے ان کے حاندان والوں سے بھی تعلقات منقطع کر لیے تھے اور انھیں مسلسل ہراساں کیا جارہا تھا۔ اتنا ہی نہیں کورونا وائرس کی رپورٹ نگیٹیو آنے کے بعد بھی ان کے شوہر کے ساتھ بدسلوکی کی گئی جس سے مجبور ہوکر انھوں نے خود کی جان لی۔

’نفرت کے تاجر‘

دلی یونیورسٹی کے استاد اور سماجی تجزیہ کار پروفیسر اپورو آنند اس سلسلے میں کہتے ہیں کہ اس سب کے پیچھے ایک خاص نفسیات کام کر رہی ہے، جس کی بنیاد مسلم مخالفت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف فیک نیوز اور افواہیں نہ صرف ’ایک قسم کی سماجی بیماری ہے بلکہ اس نے ایک انڈسٹری کی شکل اختیار کر لی ہے۔ یہ خبریں خوب چلتی ہیں، اور خبر نویس ایسی خبریں نہ صرف لکھتا ہے بلکہ گڑھتا ہے۔ ایڈیٹرز اور مالکان ایسی خبریں تیار کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ ان سب کو ایک متبادل نقطہ نظر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جس پر اندھا دھند یقین کرنے والوں کی اچھی خاصی تعداد ہے۔‘

اس مسئلے سے نجات پانے کے سلسلے میں وہ کہتے ہیں کہ اس صورتحال کا مقابلہ صرف قانون کے ذریعے نہیں کیا جا سکتا۔ ’جب تک سماج میں مسلمانوں کے تئیں نفرت کا مادہ موجود ہے، صورتحال میں بہتری ناممکن ہے‘۔

ایک سینئر صحافی کے ساتھ اپنی ایک گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انھوں نے ایک بار’مجھ سے پوچھا تھا کہ آخر کب تک ہندوستان کی مذہبی اقلیتوں کو ہندوؤں کے ذہنی طور پر درست ہونے کا انتظار کرنا پڑے گا؟‘

پروفیسر اپورو آنند نے مزید کہا کہ ’یہ سوال سارے ہندوؤں کو سننا ہوگا۔ انھیں اس پر سوچنا ہوگا اور جب تک ایسا نہیں ہوگا، نفرت کے تاجر اس کا فائدہ اٹھاتے رہیں گے۔‘