چینی اور آٹا بحران انکوائری رپورٹ پر سوشل میڈیا پر بحث: ’جب چینی کے ساتھ گیم کھیلی گئی تو سرکار کہاں تھی‘
پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ وہ آٹے اور چینی کے بحران پر ایف آئی اے کی انکوائری رپورٹ پر کسی بھی قسم کی کارروائی کرنے سے قبل 25 اپریل تک مفصل فرانزک آڈٹ کے نتائج کا انتظار کریں گے۔
گذشتہ روز حکومت کی جانب سے منظر عام پر لائی جانے والی انکوائری رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ ماضی قریب میں پیدا ہونے والے چینی اور آٹے کے بحران سے تحریک انصاف کے مرکزی رہنما جہانگیر ترین اور وفاقی وزیر خسرو بختیار کے قریبی رشتہ دار مستفید ہوئے تھے۔
رپورٹ کے مطابق آٹا بحران بھی باقاعدہ ایک منصوبہ بندی کے تحت پیدا کیا گیا، جس میں سرکاری افسران اور اہم سیاسی شخصیات ملوث ہیں۔
تاہم عمران خان نے اپنی ٹویٹ میں مزید کہا کہ ’اس رپورٹ کے نتائج سامنے آنے کے بعد کوئی بھی طاقتور گروہ عوامی مفادات کا خون کر کے منافع سمیٹنے کے قابل نہیں رہے گا۔‘
یہ بھی پڑھیے
ادھر پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے ایف آئی اے کی رپورٹ پر اپنا ردِعمل دیتے ہوئے اس رپورٹ کو ’ایک سنگین انکشاف‘ اور وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلی عثمان بزدار کے خلاف ’فرد جرم‘ قرار دیا ہے۔
انھوں نے کہا ہے کہ ’دیکھتے ہیں کہ وزیراعظم جو اقتصادی رابطہ کمیٹی کے چیئرمین بھی ہیں اپنے اور اپنے وزیر اعلی کے خلاف اس بڑے پیمانے پر ہونے والی کرپشن اور اقربا پروری پر کیا سزا مقرر کرتے ہیں۔‘
تاہم اس حوالے سے سوشل میڈیا پر بھی ردِ عمل دیکھنے میں آیا ہے اور پاکستان میں ٹرینڈز کی فہرست میں ایف آئ اے کی رپورٹ پر خوب بحث ہو رہی ہے۔
سوشل میڈیا پر اس حوالے سے زیرِ بحث موضاعات میں جہاں یہ بحث ہو رہی ہے کہ کیا یہ تمام شخصیات اپنے عہدوں سے ہٹائے جائیں گے وہیں خود عمران خان اور حکومت کے خلاف کارروائی کرنے کے حوالے سے بھی بات کی جا رہی ہے۔
کچھ صارفین نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ کیا نیب ان سب کے خلاف بھی ویسے ہی کارروائی کرے گا جیسے حزب مخالف کے رہنماؤں کے خلاف کی جاتی ہے۔
صحافی منصور علی خان نے لکھا کہ عمران خان اس بات پر تو داد کے مستحق ہیں کہ وہ انکوائری رپورٹ منظر عام پر لے آئے لیکن کیا وہ قصور واروں کو نشانِ عبرت بنائیں گے، بس اسی کا انتظار ہے۔
خیال رہے کہ اس رپورٹ کے حوالے سے ایک اعلیٰ سطحی کمیشن کی جانب سے مفصل فرانزک آڈٹ کے نتائج 25 اپریل کو آنے ہیں۔
اس حوالے سے اپنا تجزیہ دیتے ہوئے حامد میر نے کہا کہ عمران خان کے دور میں بھی واجد ضیا ہی حکومت کی کرپشن کی کہانی سامنے لائے ہیں جو شریف خاندان کے بارے میں جے آئی ٹی رپورٹ لے کر آئے تھے۔ اس حوالے سے کریڈٹ ان کا ہے، حکومت کا نہیں۔
مقبول صحافی محمد ضیا الدین نے کہا کہ عمران خان ایک طرف تو اپنی حکومت سے قبل کرپشن کرنے والے سیاست دانوں کو سزائیں دینا چاہتے ہیں تو دوسری جانب وہ کووڈ 19 کے افریت سے مقابلہ کرنے کے لیے اپنی حکومت آنے کے بعد کرپشن کرنے والوں کو منظر عام پر لے آئے ہیں۔
’لیکن وہ اس کرپشن مافیا کو سہولت دینے کے لیے پیدا کیے جانے والے ماحول کے بارے میں کسی سوال کا جواب نہیں دینا چاہتے۔‘
صحافی اجمل جامی نے لکھا کہ عمران خان کو داد تو دینی چاہیے لیکن سوال یہ ضرور اٹھے گا کہ جب چینی کے ساتھ گیم کھیلی گئی تو سرکار کہاں تھی۔
انکوائری رپورٹس میں کیا ہے؟
ہمارے نامہ نگار اعظم خان کی تحریر کے مطابق تحقیقاتی کمیشن کی فہرست میں جہانگیر ترین کی 'جے ڈی ڈبلیو' شوگر ملز اور 'جے کے کالونی- II' کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سال 2018-19 کے دوران سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین کی شوگر ملز کو پہنچایا گیا ہے۔
جے ڈی ڈبلیو نے کل چینی کی پیداوار 640،278 ٹن کی جس میں سے 121،621 برآمد کی گئی جو کل برآمدات کا15.53 فیصد بنتا ہے۔ جہانگیر ترین کو حکومت کی طرف سے 56 کروڑ سے زائد سبسڈی ملی جو کل دی گئی سبسڈی کا 22.52 فیصد بنتا ہے۔
جہانگیر ترین کی ہی جے کے کالونی- II نے 70،815 ٹن چینی کی پیداوار کی اور 1،000 ٹن برآمد کر لی اور پھر اس پر مزید سبسڈی بھی حاصل کی۔
وفاقی وزیر خسرو بختیار کے قریبی رشتہ دار کے 'آر وائی کے گروپ' نے 31.17 فیصد چینی برآمد کی اور 18.31 فیصد سبسڈی حاصل کی جو 45 کروڑ سے زائد بنتی ہے۔
دیگر کمپنیوں میں 'الموئیز انڈسٹریز' اور 'تھل انڈسٹری کارپوریشن' ہیں جنھیں کل سبسڈی کا 16.46 فیصد دیا گیا۔
نکوائری رپورٹ میں پنجاب حکومت سے متعلق بتایا گیا کہ صوبائی حکومت نے دباؤ میں آ کر شوگر ملز کو سبسڈی دی اور اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے برآمدات کی اجازت دی۔
تاہم اس انکوائری میں یہ کہیں ذکر نہیں ہے کہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی حکومت نے کس کے دباؤ میں آ کر شوگر ملز کو سبسڈی اور برآمدات کی اجازت بھی دی۔
رپورٹ کے مطابق ان شوگر ملز کو سبسڈی ایک ایسے وقت پر دی گئی جب مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔
رپورٹ کے مطابق شوگر ملز نے باقاعدہ منصوبے کے تحت ملز بند کرنے کا اعلان کیا اور بعد میں سستے داموں گنا خریدا مگر زیادہ منافع کی دوڑ میں اس کا فائدہ عوام تک نہیں پہنچایا جا سکا۔
تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی نااہلی آٹا بحران کی بڑی وجہ بنی۔
پاکستان میں جنوری اور فروری میں میں گندم کے بحران کے باعث آٹے کی قیمت 70 روپے فی کلو ہو گئی تھی۔
وزیراعظم عمران خان نے بھی آٹے کے بحران اور قیمتوں میں اضافے کا نوٹس لیتے ہوئے گندم ذخیرہ کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی ہدایت کی تھی۔
تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی نااہلی آٹا بحران کی بڑی وجہ بنی۔