افغان نوجوان اور نسلی امتیاز: ’کوئی خودکش حملہ ہوتا ہے تو ہمیں شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے‘

  • سحر بلوچ
  • بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
طلبا

اقوامِ متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 46 لاکھ افغان باشندے اپنے ملک سے باہر رہتے ہیں۔ ان میں سے صرف پاکستان میں رہنے والوں کی تعداد 14 لاکھ ہے جن کی اس وقت تیسری نسل پاکستان میں بڑی ہو رہی ہے۔

پیر کو اسلام آباد میں افغان پناہ گزینوں سے متعلق ایک بین الاقوامی کانفرنس میں افغان شہریوں کی پاکستان آمد کی چار دہائیاں مکمل ہونے پر بحث کی گئی اور اس بارے میں بھی بات کی گئی کہ افغان پناہ گزینوں کو کس طرح بااختیار بنایا جائے۔

لیکن پاکستان کے دارالحکومت میں رہنے والے افغان آخر اس بارے میں کیا سوچتے ہیں؟

یہ جاننے کے لیے بی بی سی نے اسلام آباد میں رہنے والے چند ایسے نوجوانوں سے بات کی جن کے والدین اور خاندان کے دیگر افراد 40 سال پہلے بے سروسامانی کی حالت میں افغانستان سے پاکستان آئے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

YouTube پوسٹ نظرانداز کریں, 1
Google YouTube کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Google YouTube کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Google YouTube ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

تنبیہ: دیگر مواد میں اشتہار موجود ہو سکتے ہیں

YouTube پوسٹ کا اختتام, 1

دیبہ عزیزی:

’میری پیدائش خیبر پختونخوا کے شہر پشاور میں ہوئی ہے۔ بڑے ہوتے ہوئے میں خود کو افغان نہیں سمجھتی تھی۔ جب میری فیملی اسلام آباد آئی تو مجھے پانچ سال تک سکول میں داخلہ نہیں ملا۔‘

’سرکاری سکول میں افغان پناہ گزینوں سے متعلق کچھ پابندیاں تھیں کہ اگر آپ افغان ہیں تو کچھ کام آپ نہیں کر سکتے۔ اس وجہ سے کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ جس کی وجہ سے سکول دیر سے شروع کیا۔

دیبہ عزیزی
،تصویر کا کیپشندیبہ عزیزی

’یہ سب دیکھ کر مجھے اپنی شناخت کا پتا چلا۔ جب بھی دونوں ملکوں یعنی پاکستان اور افغانستان کے تعلقات خراب ہوتے ہیں تو اس کا خمیازہ ہمیں بھگتنا پڑتا ہے۔‘

’میں نے آج تک پاکستانیوں اور افغان لوگوں میں کوئی فرق نہیں دیکھا ہے۔ میری درخواست ہے کہ ہمیں دہشتگرد نہ سمجھا جائے، ہم دہشتگرد نہیں ہیں۔ جب بھی کوئی خودکش حملہ ہوتا ہے تو شک کی نگاہ سے ہمیں کیوں دیکھا جاتا ہے؟‘

’ہم وہ پناہ گزین ہیں جو اپنے ملک چلے جائیں گے جب ہمارے ملک میں امن آ جائے گا۔ ہم خواہش کرتے ہیں کہ افغانستان میں امن آ جائے تاکہ ہم اپنی زندگی وہاں جا کر آگے بڑھا سکیں۔‘

عبدالرحمان
،تصویر کا کیپشنعبدالرحمان

عبدالرحمان:

’میرا تعلق پشاور سے ہے اور میں اسلام آباد میں اپنی پڑھائی مکمل کر رہا ہوں۔‘

’جب بھی کوئی دہشتگردی کا واقعہ ہوتا ہے تو افغان پناہ گزین کا نام اس واقعے سے جوڑا جاتا ہے۔ ہم پر اس کا مختلف طریقے سے اثر ہوتا ہے۔‘

’ایسے کسی بھی واقعے کے بعد جب ہم کالج یا سکول جاتے ہیں تو ہمارے کلاس فیلوز ہمیں تعصب کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ایسے دیکھتے ہیں جیسے یہ دہشتگردی کا واقعہ ہم نے کیا ہو۔‘

’اس کے علاوہ جب ہم کسی ادارے میں داخلہ لیتے ہیں اور شناختی کارڈ کے بجائے پناہ گزینوں کو جاری کیا گیا پی او آر کارڈ دکھاتے ہیں تو داخلہ دینے والوں کا رویہ بالکل بدل جاتا ہے۔‘

’ہمارے ساتھ پھر ویسے تعاون نہیں کیا جاتا جیسے کسی عام شہری کے ساتھ کیا جاتا ہو۔‘

نعمت اللہ
،تصویر کا کیپشننعمت اللہ

نعمت اللہ:

’میرا تعلق کوہاٹ سے ہے۔ کچھ لوگ پشتو زبان سے تضاد رکھتے ہیں۔ میں جب پشتو زبان میں بات کرتا ہوں تو مجھے فوراً گھُورا جاتا ہے۔‘

’سارے لوگ تو ایک جیسے نہیں ہوتے۔ اور ایسا کرنے والے بھی تنگ نظری کا شکار ہیں۔ لیکن میں اس بات سے انکار نہیں کروں گا کہ اپنی زبان میں بات کرنے سے پہلے اب مجھے سوچنا پڑتا ہے۔ خاص کر جب لوگوں کو یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ افغان ہے تو پھر ان کا رویہ مختلف ہو جاتا ہے۔‘

’کیونکہ میرے بارے میں فوراً سے خیال بنا لیا جاتا ہے کہ میں کون ہوں اور کہاں سے آیا ہوں۔‘

صبیرہ خلیلی
،تصویر کا کیپشنصبیرہ خلیلی

صبیرہ خلیلی:

’میری پیدائش مہاجر کیمپ پشاور میں ہوئی ہے اور اب میں اسلام آباد میں ہاسٹل میں رہتی ہوں جبکہ میری فیملی پشاور میں ہے۔‘

’سچ یہی ہے کہ جب بھی دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تعلقات صحیح ہوں گے تو ہمارے حالات بھی بہتر ہو جائیں گے۔‘

’میری طرح کے اور لوگوں، خاص کر کے نئی نسل کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی شناخت کھو دی ہے۔ ہم حکومت سے چاہتے ہیں کہ ہمیں ہتھیار کے طور پر استعمال نہ کیا جائے۔‘

واضح رہے کہ اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق، دنیا بھر میں پناہ گزینوں کے لیے امداد میں کمی دیکھی جا رہی ہے جبکہ افغانستان سے دنیا بھر اور خاص کر پاکستان میں پناہ لینے والے افغان پناہ گزینوں کے لیے بھی امداد میں واضح کمی دیکھی گئی ہے۔

2016 میں پاکستان سے تقریباً چھ لاکھ افغان پناہ گزینوں کو افغانستان واپس بھیجا گیا تھا۔ اس عمل کو انسانی حقوق کے اداروں نے تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے پالیسی میں تبدیلی کی بات کی تھی۔

جبکہ 2018 میں پاکستان کے وزیرِاعظم عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ حکومت افغان اور بنگلہ دیشی پناہ گزینوں کو شہریت دینے کے معاملے پر غور کر رہی ہے۔

اس اعلان کا براہِ راست اثر پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کے ساتھ ہونے والے رویے میں بدلاؤ لانے کی صورت میں دیکھا گیا اور خوب سراہا بھی گیا لیکن اس پر اب تک غور کیا جا رہا ہے۔